p613 322

کورونا کی صورتحال اور حکومتی اقدامات

دنیابھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میںدن بدن اضافہ کی صورتحال اس ضمن میںمزید اقدامات وانتظامات اور پابندیوں کی متقاضی ہیں۔ کرونا وائرس سے بچائو کے جتنے بھی اقدامات سرکاری سطح پر اٹھائے جائیں جب تک عوام اجتماعی وانفرادی حد تک احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے اس مشکل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سوائے کرفیو لگانے کے باقی ممکنہ اقدامات اُٹھا چکی ہے، اس کے بعد اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی صورتحال کا ادراک کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس سے بچاؤ اور تدارک کا مکمل حل عالمی طور پر کسی بھی ملک کے پاس نہیں، یہی وہ مشکل ہے جو دنیا کو درپیش ہے اور پاکستان جیسے معاشی مشکلات کا شکار ملک کیلئے یہ صورتحال دوہری مشکل کا باعث ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معاشی مشکلات سخت مرحلے میں ہیں اچانک اس صورتحال سے دوچار ہونے سے حکومت کی ساری توجہ، توانائیاں اور اقدامات کارخ تبدیل ہونے سے ملک پر جو معاشی واقتصادی بوجھ پڑا ہے اس کے اثرات سے نمٹنا بھی حکومت کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ معلوم نہیں کرونا وائرس کے پھیلائو اور اس سے بچائو کے اقدامات میں کتنا عرصہ لگے اور حکومت کو کس حد تک جا کر اقدامات وانتظامات کرنے پڑیں۔ فوج طلب کرنے سے اس امر کا عندیہ ملتا ہے کہ حکومت بغیر کسی ہنگامہ خیزی اور خوف وہراس کی فضا پیدا کئے بغیر بالحکمت وبتدریج لاک ڈائون کرنے جارہی ہے اور یہی مناسب طریقہ ہے کیونکہ اگر بغیر تیاری کے لاک ڈائون کا اعلان کیا جائے تو شاید اشیائے خوردنی کی دکانیں اس طرح سے اچانک خالی ہوجائیں کہ پھر حکومت کیلئے صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہوجائے۔ خیبرپختونخوا میں جزوی لاک ڈائون اور بازاروں کی بندش کے باعث صورتحال بڑی حد تک بہتر نظر آتی ہے البتہ صوبہ بھر میں بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ کی بندش کا توڑ گاڑیاں تبدیل کر کے نکالنے کا جو سلسلہ جاری ہے اس کے باعث یہ طریقہ کار محفوظ ہونے کی بجائے زیادہ خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، اس سے تو بہتر تھا کہ ایک ہی گاڑی میں سفر کی اجازت دی جاتی اس کے پیش نظر بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ کو اس طرح منقطع کیا جائے کہ کسی بھی ضلع کی سرحد پر گاڑیاں دستیاب نہ ہوں اس طرح کی صورتحال کے باعث پوری طرح لاک ڈائون کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے اور مکمل لاک ڈائون کی تجویز وضرورت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کرونا وائرس پھیل رہا ہے اور خدا جانے کب تک اور کیسے اس کی روک تھام ہوگی اموات اور مرض میں مبتلا ہونے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے خدا جانے کب جا کرصورتحال بہتر ہوگی۔ شہریوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے۔ کرونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام اور علاج کیلئے حکومتی اقدامات کی حقیقت ہیچ ہے۔اس وقت ہمیں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ کرونا مرض کو پھیلنے اور وبا کی شکل اختیار کرنے سے روکنے کیلئے اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ صائب ہیں اور ان کے مثبت اثرات و نتائج سامنے آنے کا پورا یقین بھی ہے۔ جو آفت ہم سمیت پوری دنیا پر نازل ہو چکی ہے’ اس پر ایک دوسرے کو مطعون کرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کمر کس لینی چاہیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی سب حکومتیں مل کرآگے بڑھیں اور مشترکہ طور پر وہ تمام اقدامات کریں’ جو وقت کا تقاضا ہیں۔ عوام اگر حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کی پوری طرح پاسداری کریں تو سب سے زیادہ ممد ومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہاں ہم وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے اس مؤقف کی طرف متوجہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ہسپتالوں میں طبی عملے کی حفاظت کے لئے ضروری چیزیں موجود نہیںلوگوں کو بغیر حفاظتی اقدامات اختیارکئے باہر نکلنے کو ممنوع قرار دیا جائے اور پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو ضروری خریداری کیلئے مارکیٹ آنے سے روکے، میڈیکل اور جنرل سٹورز میں ماسک کی فراہمی کیلئے سرکاری طور پر اقدامات کئے جائیں اور لوگوں کو کسی بھی قسم کے حفاظتی سامان کی عدم دستیابی کی صورت میں کم از کم رومال اور چادر سے منہ ڈھانپ کر بازار اور مسجد جانے کی ہدایت کی جائے اور ممکنہ حد تک خلاف ورزی کرنے والوں کو روکا جائے جب تک حکومت سختی کا برتائو نہ کرے اس امر کی کم ہی توقع ہے کہ لوگ رضا کارانہ طور پر حفاظتی اقدامات اختیار کریں گے۔ جن لوگوں کو حفظ ما تقدم عزیز نہیں کم از کم دوسرے لوگوں کی حفاظت اور بچائو کی خاطر ان سے بھی حفاظتی واحتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں سختی برتی جائے اور اس سلسلے میں حکومت ممکنہ ذرائع کا سختی سے استعمال کرے تو مضائقہ نہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند