4 368

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہمارے اقدامات

22اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ماحولیات پر بلائے گئے ورچل سربراہی اجلاس میں دنیا کے40ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی، خیال رہے کہ ان40ملکوں میں سے17ممالک ایسے ہیں جو دنیا میں5میں سے4حصے کی گرین ہاس گیس فضا میں خارج کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سربراہی اجلاس دراصل امریکا کی جانب سے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے باعث برباد ہوئے وقت کی بھرپائی کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ اجلاس امریکا کو موسمیات کے عالمی منظرنامے میں واپس لانے اور اپنے مقامی ایجنڈے کو عالمی موسمیاتی پالیسی کے مطابق ڈھالنے میں انتظامیہ کی مدد کرے گا۔ پالیسی کا بنیادی مقصد 2050 تک گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا ہے اور ابتدائی مرحلے کے طور پر 2030 تک کاربن کے اخراج میں 50فیصد کمی لانے کی کوششیں کی جائیں گی۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 4نکاتی حکمتِ عملی پیش کردی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ امریکی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی منصوبہ بندی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی غرض سے اُٹھائے جانے والے اقدامات سے اضافی فائدے کے طور پر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا (یاد رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے7 کروڑ امریکی بیروزگار ہیں) توانائی کے میدان میں ری نیو ایبل انرجی یا قابلِ تجدید توانائی اور برقی گاڑیوں و انفرااسٹرکچر کے ذریعے کوئلے پر انحصار کا خاتمہ اور شمسی اور آبی توانائی کو امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنانا اور گرین ٹیکنالوجی کے میدان میں چین، یورپی یونین اور دیگر ممالک پر سبقت پانا۔ بنگلہ دیش اس وقت کلائمیٹ ولنرایبلٹی فورم نامی48ملکی گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔ اس گروپ میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی ایک ارب20کروڑ بنتی ہے اور یہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں 5 فیصد کے حصہ دار ہیں۔ چین فوسل فیول یا حفری ایندھن اور اس کیساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کا سب سے بڑا سرمایہ کار اور اسے سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی عالمی عمل میں ان دونوں ممالک کی شمولیت لازمی ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آئندہ لائحہ عمل پر عالمی باہمی اتفاق رائے قائم ہوسکے۔
امریکا کے برعکس بھارت میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات اب تک مقامی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔
پاکستان بھلے ہی مدعو نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ سربراہی اجلاس پاکستان کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ ملک رواں سال جون میں ماحولیات کے عالمی دن کی شریک میزبانی کرے گا۔ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ عالمی توجہ حاصل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل3باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔ اول اپنے مقصد کو عالمی مقصد کے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ اسی لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی تپش کو2سیلسیس گریڈ کے بجائے 1.5سیلسیس گریڈ تک محدود رکھنے صدی کے وسط تک خود کو کاربن نیوٹرل اور 2030تک تقریبا زیرو کاربن اخراج رکھنے والا ملک بنانے اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے کی باضابطہ طور پر حمایت کرے۔ دوم پاکستان کے اعلانات کو قابلِ بھروسہ ہونا چاہیے اور انہیں منصوبہ بندی ومناسب اقدامات کے تحت وزن دار بنایا جائے۔ بہتر سے بہتر اعلامیے بھی صرف اس وقت ہی قابلِ بھروسہ قراد دئیے جاسکتے ہیں جب ان کیلئے رقم مختص ہو اور ان کا وقفے وقفے سے جائزہ لینے اور ان سے برآمد ہونے والے نتائج کو دنیا کے سامنے لانے کا انتظام ہو۔
سوم اپنے مقصد کو واضح کرنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ماحولیات سے متعلق عالمی میدان میں ہمارے ملک کو بھی شامل رکھے تو اس کیلئے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافق ترقیاتی منصوبہ بندی پر عمل کا عزم ظاہر کرنا ہوگا جس کے تحت معیشت کو کاربن سے پاک کرنا ہوگا اور قابلِ جدید توانائی اور قابلِ استطاعت توانائی کے ذریعے اپنی مسابقت بڑھانی ہوگی، مادی اور انسانی سرمائے کو پائیدار بنانا ہوگا اور معیشت کو ماحولیات سے متعلق فیصلوں سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے macro-fiscal sustainability کو بہتر کرنا ہوگا۔ پاکستان ان اقدامات سے حاصل ہونے والی کامیابی کی کہانیاں دنیا کو سنا کر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس اس سے بہتر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟