3 389

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

اب اس سے ہمیں کیا غرض کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے مسئلے پر حکومتی اور اپوزیشن رہنماء کیا کیا کہتے ہیں کہ ان کی حیثیت تو گھر میں رکھے ان برتنوں کی مانند قرار دی جاسکتی ہے جن کے آپس میں ٹکراتے رہنے کا محاورہ ہمارے ہاں رائج ہے، اگرچہ یہ محاورہ گھروں میں رہنے والے افراد کے حوالے سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے تاہم سیاسی رہنماؤں کو بھی وسیع تناظر میں پورے ملک کو ایک کنبہ تصور کر کے قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ جس مسئلے کی جانب ہم نے اشارہ کیا ہے اس پر انگریزی محاورے فرام دی ہارسز ماؤتھ کو لاگو کر کے دیکھا جائے تو بقول مرزا غالب بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر والی صورتحال ضرور سامنے آتی ہے یعنی خود الیکشن کمیشن نے جو سوالات اُٹھائے ہیں ان کو کسی بھی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ایک خبر کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ نظام سے متعلق الیکشن کمیشن نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی استعداد پر سوالات اُٹھا دئیے ہیں، ذرائع کے مطابق وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم ہی نہیں کیں، کمیشن نے محولہ مشین پر بریفنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ الیکٹرانک بائیو میٹرک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ آرٹی ایس کی طرح کام کرنا چھوڑ گئی تو متبادل کیا ہوگا؟ ٹیکنالوجی میں جدت کے باعث مشینوں کے ایک بار استعمال کے بعد دوبارہ استعمال میں بھی پیچیدگیاں پیش آسکتی ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مینوفیکچرنگ لاگت اور استعمال کے بعد سٹوریج اور مرمت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے، الیکشن کمیشن نے یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ الیکٹرانک اور بائیو میٹرک ووٹنگ مشین کون بنائے گا اور ہیکنگ سے کتنی محفوظ ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر سیاسی حلقوں کے بیانئے کو ہم پہلے ہی خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے اسے گھروں میں رکھے برتنوں کے ٹکرانے سے موسوم کر چکے ہیں۔ تاہم جو سوال الیکشن کمیشن نے اُٹھائے ہیں ان کو اتنی آسانی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا اور اس کیلئے ہمیں اپنے ماضی میں جھانکنا پڑے گا، جب ملک کے اندر انتخابی عمل میں ”جھرلو” کو متعارف کرایا گیا، اس ضمن میں بعض لطیفے بھی بہت مشہور ہیں تاہم ان سے بھی صرف نطرکرتے ہوئے ”حقائق” تک خود کو محدود رکھتے ہیں اور جہاں تک جھرلو کا تعلق ہے تو بعض روایات کے مطابق اس کی ابتداء صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے سابق وزیراعلیٰ خان قیوم نے کی تھی جب ان کے دور میں مخالف اُمیدواروں کے بیلٹ بکس یا تو اندر ہی اندر خالی کر کے ان کے ووٹ بھی سرکاری اُمیدواروں کے بیلٹ بکس میں منتقل کر دئیے گئے یا پھر پورے کے پورے بیلٹ بکس ہی تبدیل کر کے نتائج کو تبدیل کر دیا گیا۔ اس حوالے سے تفصیلات کالم کی تنگی داماں کی وجہ سے شامل نہیں کی جاسکتیں، بعد میں یہ وباء پورے ملک میں پھیلتی چلی گئی جبکہ ایوبی آمریت میں یہ ”بیماری” پورے عروج پر پہنچ گئی اور ان کے لائے ہوئے بنیادی جمہوریت کے نظام میں کہیں حکومتی سرپرستی اور کہیں مقابلے میں شامل اُمیدواروں نے ذاتی حیثیت میں نئے طور طریقے (دھونس، دھاندلی، دھینگا مشتی وغیرہ وغیرہ) آزماتے ہوئے الیکشن پر اثرانداز ہونا وتیرہ بنا لیا، مگر یہ جھرلو اسی دور میں اپنی انتہاء پر اس وقت جاپہنچا جب پہلے صدارتی انتخابات میں جو ایوب خان اورمحترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہو رہا تھا، دو اور اُمیدور بھی تھے مگر ان کو مقابلے میں شامل کرنے پر ہمیشہ سوالات اُٹھائے جاتے رہے کہ وہ کس کے اُمیدوار تھے، مبینہ طور پر ایک سائینٹفک طریقہ واردات استعمال کیا گیا اور شنید ہے کہ بیلٹ پیپر پر سب سے اوپر ایوب خان، سب سے نیچے محترمہ فاطمہ جناح جبکہ درمیان میں دو دیگر اُمیدواران کے نام چھاپے گئے اور حکم یہ تھا کہ بیلٹ پیپر پر اپنی پسند کے اُمیدوار کے نام کے خانے میں کراس کا نشان بنانے کے بعد اس طرح تہہ کیا جائے کہ ایوب خان اور متحرمہ فاطمہ جناح کے نام ایک دوسرے سے جڑ جائیں، اس طریقہ واردات سے بیلٹ پیپر پر مبینہ طور پر محترمہ فاطمہ جناح کے نام کے سامنے کراس کا نشان خودبخود ہی ایوب خان کے نام والے خانے پر منتقل ہوجاتا، اب اس میں کہاں تک صداقت ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، تاہم اس الزام کی ”صداقت” ان دعوؤں سے ہو جاتی ہے جب ایوب خان جن کی مقبولیت بہت نیچے گر کر ”خاک” میں مل چکی تھی مگر وہ پھر بھی بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے، بعد کے ادوار میں انتخابی جھرلو کے نت نئے طریقے بھی سامنے آگئے اور ریفرینڈم کے نام نہاد نتائج سے من پسند فیصلے عوام پر تھوپے گئے، اس لئے یہ جو الیکشن کمیشن نے چند سوالات اُٹھائے ہیں ان میں سب سے اہم تو وہی یعنی آرٹی ایس کی طرح اگر خدانخواستہ یہ مشین بھی عین وقت پر کام کرنا چھوڑ دیں تو متبادل کیا ہوگا؟ دوسرا اہم سوال اگر انتخابات کے روز مقامی سطح پر ہیکرز نے ہاتھ دکھا کر نتائج کو تبدیل کر دیا تو کیا ہوگا اور مقامی کو تو چھوڑیں اگر عالمی سطح پر پورے نظام کو ہی ہیک کر لیا گیا تو پھر؟ باقی رہ گئے دیگر سوال کہ مشینوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے، ان کی سٹوریج اور ان پر اُٹھنے والی لاگت کیا ہے اور کیا یہ موجودہ سسٹم سے زیادہ تو نہیں؟ ان پر اگر زیادہ غور نہ کیا جائے تو کوئی بات نہیں، البتہ اگر پولنگ سٹیشنوں سے ماضی میں ووٹ کے ڈبے اُٹھا کر بھاگنے کی وارداتوں کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہی ”اغوائ” ہونا شروع ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا، اس لئے کہ چند مسلح افراد بلاخوف وخطر فائرنگ کرتے ہوئے پولنگ سٹیشنوں کو یرغمال بناسکتے ہیں بہرحال ان سوالات پر منیز نیازی کے الفاظ میں یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل