5 386

افغانستان میں شدید خانہ جنگی کا خدشہ

دوحا معاہدے کے مطابق یکم مئی کو امریکی افواج کے انخلا سے انکار اور بائیڈن حکومت کی جانب سے افغانستان میں خانہ جنگی کی تیاریوں نے افغانستان میں شدید خانہ جنگی کا خدشہ پیدا کردیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے میدان ِ جنگ اور دوحا مذ کرات کی میز پر ہاری ہوئی جنگ جیتنے کیلئے بہت کوشش کی لیکن افغانستان میں طالبان کا یہی کہنا ہے انہوں نے امر یکا سے20برس جنگ صرف اس لیے لڑی ہے تاکہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کو عملی طور پر یقینی بنایا جائے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے20جنوری کو حلف اُٹھانے کے فوری بعد ہی افغانستان میں قیام امن کے دوحا معاہدے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صدر جو بائیڈن نہ صرف افغانستان میں بلکہ افغانستان کی سرحد سے منسلک وسط ایشیائی ممالک میں موجود تمام افغان گروپوں کو بھارت کی مدد سے اسلحہ کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے افغانستان سے امریکا نکلنے سے پہلے افغانستان کو بدامنی کے جہنم میں جھونکنے کی تیاری مکمل کر چکا ہے امریکا ستمبر تک افغانستان میں ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ اس کے وہاں رہنے کا جواز پیدا ہو سکے۔ پاکستان سے امریکا شمسی ائر بیس بھی حاصل کرنے متعدد مرتبہ کوشش کر چکا اور ابھی امریکی سفیر اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح پاکستان سے افغان طالبان کو نشانہ بنانے کیلئے ائر بیس حاصل کیا جائے۔ لیکن پاکستان کے انکار کی وجہ سے امریکا نے وسط ایشائی ریاستوں سے بھارت کی مدد سے روابطے شروع کر دئیے ہیں۔ مارچ2021کے آخر میں افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے بھارت کے تین روزہ دورے کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے علاوہ دیگر اہم حکام سے ملاقات کی۔ افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر بھارت کے دورے سے تین دن قبل21مارچ کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اچانک کابل کا دورہ کیا تھا۔ وہ ایشیا کے دورے پر تھے اور جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت کے بعد کابل پہنچے تھے۔ کابل میں انہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت سینئر افغان حکام سے بات چیت کی۔ یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا تھا۔ اس موقع پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا، یہ تو واضح ہے کہ افغانستان میں تشدد کی سطح بہت بلند ہے۔ امریکا حقیقتاً تشدد میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ نتیجہ خیز سفارتی کام کیلئے ماحول کی تیاری کا کام شروع ہوسکے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دوحا معاہدے کے بعداور کون کون سے سفارتی کام باقی ہیں۔ افغان وزیر خارجہ حنیف اتمرکا تازہ بیان یہ سامنے آیا ہے کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ بھارت افغان قیام ِامن میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے۔ خطے میں امن اور استحکام کے حوالے سے بھارت اس کا جائز حق رکھتا ہے۔ افغانستان اور بھارت دونوں ہی دہشت گردی سے متاثر رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے خطرات کا مل کر مقابلہ کریں۔ حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ جو لوگ خطرات پیدا کر رہے ہیں وہ صرف افغانستان کیلئے ہی نہیں بلکہ بھارت کیلئے بھی خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ لہٰذا علاقائی اور بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے میں بھارت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ واجپائی اور من موہن سنگھ حکومت کے دوران بھی امریکا نے یہ تجویز پیش کی تھی لیکن ان دونوں حکومتوں نے بڑی حکمت کیساتھ اسے ٹال دیا تھا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے حالیہ دورے کے دوران بھی غالبا یہ تجویز پھر پیش کی گئی تھی۔ ہم اپنے انہیں کالموں میں ذکر کر چکے ہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنی افواج کو امریکا کی موجودگی میں بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے لیکن اگر ایسا ہو تو پاکستانی افواج کو بھی افغانستان میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ قیام امن میں پاکستان بھی ایک اہم فریق ہے اور وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں بننے والی حکومت پاکستان کی حامی رہے۔ افغانستان میں جب بھی بھارت کی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو پاکستان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ایک عرصے سے جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے کو بند کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ بھارت نے جلال آباد میں اپنا قونصل خانہ بند کررکھا ہے، حالانکہ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا بتائی گئی ہے لیکن دراصل پاکستان کا مطالبہ ایک طرح سے مان لیا گیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے جو حتمی معاہدہ ہو اس میں بھارت کے قونصل خانے کو بند کرنے کی بات بھی شامل ہو۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے سامنے خود ہی واضح نہیں ہے کہ بھارت کا افغانستان میں وسیع تر کردار کیا ہوسکتا ہے۔ بھارت کیلئے اپنے تقریباً دو ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری ہی کو بچانے کا بڑا مسئلہ درپیش ہے جو بھارت نے افغانستان میں خرچ کیے ہیں۔ بھارت افغانستان میں بڑا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور امریکا اس کیساتھ ہے۔ یہ سب کچھ افغان اور پاکستان میں قیام ِ امن کیلئے تباہ کن ہے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں