2 82

مشرقیات

بہادر شاہ ظفر خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ تھے ، ان کی عمر کا آخری حصہ بڑا درد ناک رہا ، انگریزوں نے انہیں گرفتار کیا ، ان کے سامنے ان کے عزیز قتل کئے گئے ، انہیں قید وبند کی تاریکیوں میں پھینک ڈالا ۔
بہادر شاہ ظفر کا ایک مشہور معمر ” مولا بخش”نام کا قدیم ہاتھی تھا ، اس نے کئی بادشاہوں کو سواری دی تھی، اس ہاتھی کی عادتیں بالکل انسان جیسی تھیں۔ قد وقامت میں ایسا بلند وبالا کہ سرزمین ہند میں اس کی مثال نہ تھی۔ یہ ہاتھی جب بیٹھتا تھا تو اور ہاتھیوں کے قد کے برابر ہوتا تھا، خوبصورتی میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا، کسی آدمی کو سوائے ایک خدمتی کے پا س نہ آنے دیتا تھا، جس دن بادشاہ کی سوار ی ہوتی تھی، اس سے ایک دن پہلے ہی چوب دار جا کر حکم سنا دیتا کہ مولا بخش! کل تمہاری نوکری ہے، ہو شیار اور تیار ہو جائو، بس اس وقت سے وہ تیار ہو جاتا، جس وقت ہوادار سواری میں نقارخانہ کے دروازے سے بادشاہ برآمد ہوتے، چلا کر سلام کر کے خود ہی بیٹھ جاتا، حرکت بھی نہ کرتا، جب بادشاہ سوار ہو جاتے اور فوج دار اشارہ کر دیتا تو فوراً تیار ہوجا تا اور کھڑاہو جاتا،مختصریہ کہ جب سواری سے فرصت پائی تو ویسا ہی مست ہو جاتا، جیسا پہلے تھا، یہ کمال اس ہاتھی کو حاصل تھا۔ جب فیل خانہ شاہی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تو مولا بخش نے دانہ پانی چھوڑ دیا، فیل بان نے جا کر حاکم کو اطلاع دی کہ ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ انگریز حاکم کو یقین نہ آیا، فیل بان کو برا بھلا کہا کہ ہم چل کر خود کھلائیں گے ، وہ شیر ینی لڈو مٹھائی اور کچور یاں ساتھ لے کر ہاتھی کے تھان پر پہنچا اور مٹائی کا ٹوکراہاتھ کے سامنے رکھوادیا، ہاتھی نے غصہ میں آکر ٹوکرے کو اس طر ح کھینچ مارا کہ اگر کسی آدمی کو لگتا تو کام تمام ہو جاتا، ٹوکرادور جا گرا اور تمام شیرینی بکھر گئی۔ حاکم کہنے لگا ہاتھی باغی ہے، اسے نیلام کر دو ۔
چنانچہ اسی روز صدر بازار میں لا کھڑا کیا اور نیلامی کی بولی لگی، لیکن کوئی خریدنے والا نہ تھا، آخر ایک پنساری نے ڈھائی سوروپے کی بولی لگائی، اسی بولی پر نیلام ختم کر دیا گیا، فیل بان نے ہاتھی سے کہا کہ لے بھائی تمام عمر تم نے بادشاہوں کی نوکری کی، اب تقدیر پھوٹ گئی کہ ہلدی کی گرہ بیچنے والے کے دروازے پر چلنا پڑا، یہ سنتے ہی ہاتھی کھڑے قد سے زمین پر گر پڑا اور مر گیا۔ مولا بخش جو شاہی فیل خانہ میں سانس لیکر عمر کا ایک بہت بڑا حصہ کاٹا تھا اور وفاداری و فاشعاری کا مظہر تھا ، اس کو ظاہر ہے کہ کسی دوسرے کا دروازہ اچھا نہیں لگا، جب ایک بے زبان جانور کے اندر اتنی عمدہ خصوصیت پائی جاتی ہے تو انسان کو بدرجہ اولیٰ وفاداری کی مثال پیش کر کے اپنے مالک حقیقی کا شکر گزار بننا چاہئے اور اس کے در کے علاوہ کسی اور در میں دست سوال دراز کرتے ہوئے اسے غیرت آنی چاہئے ۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل وشعور سے نوازا ہے اور اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ اپنے اسی رتبے کو ہی سامنے رکھ کر غیر کے بھروسے پر زندگی نہیں بسر کرنی چاہئے۔ (ماخوذا زکتابیں ہیں چمن اپنا )

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں