p613 330

انتخابات اصلاحات مگر اتفاق کیساتھ

وفاقی حکومت کا حزب اختلاف کی مخالفت کے باوجود انتخابی ترامیم لانے اور انتخابی اصلاحات والیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے متعلق آگاہی مہم چلانے کے فیصلے میں مسائل ومشکلات میں گھرے اور مہنگائی کے باعث سخت نالاں عوام کیلئے کوئی دلچسپی کا باعث نہیں۔ عام آدمی کو اس طرح کے اصلاحات سے کم ہی سروکار ہے بلکہ وہ اسے عوامی مسئلہ سمجھتا ہی نہیں، خواہ اس کی وجہ شعور کی کمی ہو یا پھر مسائل میں گھرے ہونے کے باعث وہ اس سے لا تعلق ہو۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور کا کہنا ہے کہ اس میں وہ ہر اس حلقے کوشامل کریں گے جو پاکستان کے پارلیمانی نظام میں سٹیک ہولڈر ہے یا اس میں بہتری کا خواہاں ہے، دوسری جانب انتخابی اصلاحات کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے حزب اختلاف کی حمایت درکار نہیں، خیال رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ(ن)کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے الیکٹرانک ووٹنگ نظام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک فرد کی خواہش اور حکم پر ایسے اہم قومی کام انجام نہیں پاتے، ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام پوری دنیا نے مسترد کیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اسے ناقابل عمل قرار دے چکا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ شفاف انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں لیکن اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو پھر جتنی بھی قانون سازی کرلی جائے انتخابات متنازعہ ہی رہیں گے۔ حال ہی میں ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں جو صورتحال سامنے آئی اس کے تناظر میں خواہ جتنی اصلاحات متعارف کی جائیں جب تک انتخابی عمل کے آغازسے گنتی اور نتائج کے اعلان تک کے عمل میں مداخلت سے نتائج تبدیل کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں گی ہوتی رہیں انتخابی اصلاحات لاحاصل رہیں گی۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں منظم دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن منسوخ کر کے ازسرنو انتخابات میں حکومت وانتظامیہ کا کردار مشکوک ہی نہ تھا بلکہ الیکشن کمیشن نے حکام کیخلاف کارروائی بھی کی۔ بدقسمتی سے ملک میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اور انتخابات کے عمل کو متنازعہ بنانے اور تسلیم نہ کئے جانے کا سلسلہ طویل ہے، ہر دور حکومت میں حکومتی اُمیدوار کی کامیابی کیلئے واضح تگ ودو ہر جماعت کی حکومت میں ہوتی رہی ہے، دیکھا جائے تو ملک کی سیاسی جماعتیں کبھی بھی انتخابات کو شفاف بنانے کی دل سے حامی نہیں رہیں اور اپنی کامیابی کیلئے ہر جتن کرنے کا رواج ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل بھی شامل ہے۔ حالیہ سینٹ الیکشن اور غیر متوقع نتیجے کا دہرائو کوئی پوشیدہ امر نہیں جس سے یہ بات ایک مرتبہ پھر واضح ہوگئی کہ ملکی سیاست میں کامیابی اور ہر حربہ اختیار کر کے کامیابی ہی کو سیاست کہا جاتا ہے۔حکومت جس طریقے سے انتخابی اصلاحات لا رہی ہے اس سے آئینی بحران اور نئی سیاسی محاذ آرائی وانتشار بڑھنے کے امکانات ہیں الیکشن سے تمام سیاسی پارٹیوں کا مفاد وابستہ ہے اس پر تو ہر پارٹی جان لڑا دے گی لیکن عوام کے جو مسائل ہیں ان پر سیاسی مذاکرات کون کرے گا، ان سوالات سے قطع نظر ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے باوجود بھی سیاسی جماعتوں میں اتنی ہم آہنگی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اتنے جمہوری تعلقات نہیں کہ وہ اس پر مذاکرات کریں اور ملک میں انتخابی اصلاحات لاکر تنازعہ کا خاتمہ کرنے کی سعی کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت صرف انتخابی اصلاحات پر ہی بات چیت کی ضرورت نہیں بلکہ پورے نظام کا احاطہ کیا جانا چاہئے جس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کا توازن، ٹیکس کی تقسیم، صوبوں کی ترتیب و تعلقات، بلدیاتی نظام اور ریاستی اداروں کی تعمیر جیسے اہم نکات شامل ہوں۔ ان امور سے قطع نظر حکومت اورحزب اختلاف میں ہم آہنگی نہ ہو تو حکومت انتخابی اصلاحات کو خواہ جس فورم سے بھی تسلیم کرائے گی اس حمایت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ سو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے قومی اور ملکی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ابتداء ملکی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر کیا جائے وہ متفق ہوں تو باقی جتن کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی وہ نہ مانیں تو سارے جتن لاحاصل اور بے معنی ثابت ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی