p613 330

وزیراعظم کا دوٹوک مؤقف

وزیراعظم نے یورپی یونین کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ناموس رسالتۖ کے قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ساتھ ہی اس امر کا بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ یورپی یونین کے تحفظات دور کئے جائیں گے، جنہوں نے حال ہی میں اس ضمن میں سخت اور متفقہ ردعمل کا باقاعدہ اظہار کیا ہے۔ جبری گمشدگی،صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے قوانین بھی جلد پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ توہین رسالت وتحفظ ناموس رسالتۖ کے قوانین کی منظوری نہ صرف حکومت کی اولین ذمہ داری ہے بلکہ اس حوالے سے حکومت کو عوام سے لیکر خود اندرونی سطح تک سخت دبائو کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسا نازک مسئلہ ہے جس میں حکومت کو بیرونی دبائو معاشی طور پر زچ کرنے، پابندیوں کا شکار ہونے جیسے امور پر بھی غور کرنا مجبوری ہے۔ اس معاملے کا راست حل تو سورہ احزاب میں موجود ہے جسے اختیار کرنا مسلمانوں کے دلی جذبات واحساسات کی ترجمانی اور قرآن کی ہدایات پر عمل ہوگا۔ اصولی طور پر تویہ صرف پاکستان کا نہیں، پورے عالم اسلام کامسئلہ ہے جس کا حل بھی اور دبائو کامقابلہ بھی مشترکہ طور پر ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں مسلم اُمہ کی سطح پر اقدامات کیلئے کوشاں ہونا ہی بہتر حکمت عملی ہوگی اس لئے کہ اگر پاکستان میں اس ضمن میں جس طرح کی بھی قانون سازی ہو اس کے عالمی سطح پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اگر پوری اُمت مسلمہ سورہ احزاب میں موجود قرآنی فارمولہ اختیار کرتی ہے تبھی ناموس رسالتۖ کا حق ادا ہو گا اور طاغوتی طاقتوں کے دبائو کا مقابلہ ممکن ہوگا۔ جہاں تک جبری گمشدگی، صحافیوں کے تحفظ اور آزادی اظہار کے معاملات کا سوال ہے اس حوالے سے اگر ماضی وموجودہ حکومتیں خلاف ورزیوں کے تدارک کیلئے اقدامات کرتیں اور نوبت بد سے بد تر صورتحال کی نہ آتی تو اس پر کسی بیرونی دبائو کی نوبت ہی نہ آتی لیکن پاکستان میں ان تینوں حوالوں سے جس طرح حکومتی سطح پر دعوئوں کے باوجود لاپرواہی اورسرد مہری کے مظاہرے کئے گئے اس کا شاخسانہ اب بیرونی دبائو، معاشی امداد میں تنگی اور کٹہرے میں کھڑے ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ صحافیوں کا تحفظ اور آزادی اظہار پر اگر کوئی رائے نہ ہی دی جائے تو بہتر ہوگا، سوائے اس کے کہ ابھی لمحہ موجود میں ہی ایک سینئر صحافی نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہو کر صاحب فراش ہیں اور اس طرح کے چھوٹے بڑے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں، بات کہنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی والی صورتحال بھی کم سنجیدہ نہیں جس کا احساس بیرون ملک سے دلایا جانا کوئی اچھی بات نہیں۔ اس پر حکومت کو غور کر کے تمام حالات کو مد نظر رکھ کر ضروری قانون سازی اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا عالمی سطح پر ملکی ساکھ کی بحالی کیلئے ضروری ہے۔ توہین رسالتۖ قوانین کے حوالے سے وزیراعظم کا دوٹوک موقف دینی اور قومی جذبات کی بہترین ترجمانی ہے، اس ضمن میں کامل اتفاق کیساتھ قوم وزیراعظم کی پشت پر کھڑی ہے دیگر معاملات پر غور اوراقدامات کی ضرورت ہے اور توہین رسالتۖ کے قوانین بارے واضح موقف پر ڈٹے رہنا ہی ایمان کا تقاضا ہے۔
گردشی قرضے اور آئی ایم ایف کا دبائو
وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کیساتھ نا انصافی کی ہے، بجلی ٹیرف میں اضافہ کا ان کا مطالبہ ناجائز ہے، معیشت کا پہیہ چل نہیں رہا ہے، آئی ایم ایف کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ملکی معیشت اور مہنگائی کے حوالے سے توانائی کے نرخ اور گردشی قرضوں کا بوجھ ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط اور مطالبات درد سر بنے ہوئے ہیں، جن سے چھٹکارے اور قابو پانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ وزیرخزانہ کا نقطہ نظر واضح اور سمجھ میں آنے والا ہے جس کا استدلال یہ ہے کہ جب ملک میں معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی سعی ہورہی ہے تو ایسے وقت میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دے گا، اس وقت بھی ہمارے ملکی صنعتوں کو مہنگی بجلی ہی کی شکایت ہے، ایسے میں مصنوعات کی پیداواری لاگت خودبخود بڑھ جاتی ہے جس کا اثر اشیاء کی برآمدی قدر میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ برآمدی صنعت کو تقویت دینے کا تقاضا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں کمی کی جائے نہ کہ اضافہ۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کے باوجود آئی ایم ایف قیمتوں میں کم از کم36فیصد اضافہ اور سبسڈیز کے خاتمے کا خواہاں ہے جس پر عملدرآمد کی صورت میں رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ گردشی قرضے ہمارے پاور سیکٹر کیلئے دلدل بن چکے ہیں، ان سے جتنا جلد جان چھڑاسکیں گے اتنا ہی بہتر ہوگا۔اگر بجلی کے ٹیرف کو نہ بڑھانا ضروری ہے تو گردشی قرضوں کا بھی کوئی مئوثر حل نکالنا ہوگا، بصورت دیگر اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اگر گردشی قرضوں کی بروقت فکر ہوتی تو آج اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہ ہوتا۔ بجلی کے شعبے کو آئی ایم ایف کی گرفت سے چھڑانے کیلئے ضروری ہے کہ ان قرضوں کو اُتارنے کاجلد سے جلد بندوبست کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام