p613 330

مشرقیات

حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ حلم کے سر چشموں سے سیراب ہوئے’ ان کی والدہ حضرت ام عاصم نے پہلے دن سے ہی ان کی تربیت تقویٰ کی بنیاد پر کی۔ سن شعور کو پہنچتے ہی خیر و شر کی تمیز کرنے کا سلیقہ سکھلایا اور ان کے دل میں حکمت و دانائی کا بیچ بویا۔ ماں کی خصوصی توجہ اور دلچسپی کی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بچپن میں ہی قرآن حکیم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرلی تھی۔ حضرت ام عاصم کو اپنے ننھے سے بچے کا رونا بڑا ہی عجیب و غریب محسوس ہوتا’ اپنے بچے کو روتا دیکھ کر ان کے اپنے دل میں بھی خشیت الٰہی کے پوشیدہ جذبات جوش مارنے لگتے اور وہ خود بھی رو دیتیں۔ ابن عساکر اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک روز بچپن میں رونے لگے۔ انہوں نے بچپن میں ہی قرآن حکیم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرلی تھی۔ اپنے بچے کو روتا دیکھ کر ان کی والدہ نے پوچھا: بیٹا آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے بڑے ہی معصومانہ انداز میں جواب دیا: اماں جان! مجھے موت کی یاد رلا رہی ہے۔ یہ بے ساختہ جواب سن کر ماں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے اپنے اس ہونہار پاکیزہ خیال بیٹے کو شفقت بھرے انداز میں اپنی گود میں لے لیا۔دراصل یہ خوبیاں ان کی والدہ حضرت ام عاصم کی خصوصی تربیت اور نگہداشت کا ثمرہ تھیں۔ آپ اپنے بیٹے کی حتی المقدور نگہداشت کیاکرتی تھیں’ لیکن ایک دفعہ ان سے قدرے کوتاہی ہوگئی’ بیٹا گھوڑوں کے اصطبل میں جا پہنچا’ ماں کو خبر ہی نہ ہوئی’ گھوڑے نے دولتی ماری جس سے بیٹے کی پیشانی زخمی ہوگئی۔ حضرت ام عاصم نے انہیں ایک جانب سے دیکھا’ جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور انہیں اٹھا کر اپنے سینے سے چپکا لیا اور ان کے چہرے سے خون صاف کرنے لگیں’ اسی وقت بچے کے والد وہاں پہنچ گئے۔ حضرت ام عاصم جذباتی انداز اپناتے ہوئے کہنے لگیں اگر صورت یونہی رہی تو آپ میرے بیٹے کو ضائع کردیں گے۔ ابھی تک آپ نے اس کے لئے کسی خادم کا اہتمام کیا اور نہ ہی اس کی دیکھ بھال کے لئے کسی آیا کا انتظام کیا۔ بیوی کی باتیں سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی لہر پھیل گئی’ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا: ام عاصم تو بڑی ہی خوش نصیب ماں ہو۔ سنو! امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کو ایک رات خواب آیا۔ دیکھتے ہیں کہ بنو امیہ کا ایک چشم و چراغ زخمی ہوگیا ہے۔ آپ نیند سے بیدار ہوئے اور فرمانے لگے: بنو امیہ کا یہ زخمی کون ہے؟ وہ حضرت عمر کی اولاد سے ہے ‘ اس کا نام بھی عمر ہوگا’ وہ حضرت عمر کے نقش قدم پر چلے گا اور روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب تو وفات پا گئے، لیکن ان کا یہ خواب خاندان میں زیر بحث آتا رہا۔ یہ زخم جب میرے بیٹے کی پیشانی پر آیا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی،میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو وہی زخم ہے ، جو امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب کو خواب میں دکھلایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''