1 489

ایک خط اور ایچ آر سی پی کی رپورٹ

ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ پربات کرتے ہیں پہلے جناب عبید محمد کا ای میل کے ذریعے موصول ہوا مکتوب پڑھ لیجئے۔ عبید محمدلکھتے ہیں ”اکثر آپ کے کالم پڑھتا ہوں، ہر وقت کرپٹ زرداری اور پیپلزپارٹی کی وکالت کرتے رہتے ہو۔ کوئی ایک کام بتاؤ جو پیپلزپارٹی نے اچھا کیا ہو۔ آپ کالم نگاری چھوڑ کر سیدھے جیالے بن جاؤ تاکہ آپ کی جگہ کوئی اچھا کالم نگار آئے اور وہ کالم لکھے۔ پیپلزپارٹی آپ کو کیوں پسند ہے ہمیں بھی بتائیں ورنہ پیپلزپارٹی کی حمایت میں خود کو گنہگار نہ کریں” یارآوری کیساتھ اس بات پر بھی شکر گزار ہوں کہ آپ نے بتایا بلکہ آگاہ کیا کہ پیپلزپارٹی کی حمات سے بندہ گنہگار ہوتا ہے۔ پی پی پی نے اچھے کام کتنے کئے لمبی چوڑی فہرست تو خود مالکان ومتاثرین پیپلزپارٹی بتا سکتے ہیں۔ مجھ طالب علم کی رائے میں قریب ترین کا اچھا کام 18ویں ترمیم ہے جس کی وجہ سے اس کے خون کے پیاسوں کو دن میں چین ہے نا رات کا سکون۔ ویسے عبید محمد صاحب کبھی آپ نے نون لیگ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف یا کالعدم تنظیموں کی حمایت میں دفتر کالے کرنے والوں کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ گنہگار مت ہوئیے۔ کسی دن داعش کو اسلام کی نشاط ثانیہ کا علمبردار بنا کر پیش کرنے والوں سے بھی کہیں کہ کالم نگاری اور تجزیہ خوری چھوڑ کر داعش میں بھرتی ہو جائیں۔ کوئی اور کیوں میری جگہ لے آپ ہی ہمت کیجئے لکھنا شروع کرلیں اور نیکیاں کمائیں۔ آخری بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو کبھی فرشتوں اور ولیوں کی پارٹی نہیں سمجھا، یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ اچھائیاں اور خامیاں یقیناً ہیں، آپ کو خامیاں زیادہ لگتی ہیں، مجھے ایسا نہیں لگتا، وجہ صرف یہ ہے کہ طالب علم کے طور پر میں نصف صدی سے اس جماعت کیخلاف اسلامی، ضیاء الحقی، لیگی اور اسٹیبلشمنٹی پروپیگنڈے کو دیکھ رہا ہوں۔ پیپلزپارٹی نے اور کچھ کیا ہو یا نہ یہ ضرور کیا کہ آپ نے اختلافی سطور تحریر فرمائیں اور کالم کا حصہ بن گئیں، اس کا کریڈٹ تو دیجئے۔ خیر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی مشکلات اور کرونا نے عدم مساوات کی خلیج کو گہرا کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، بلوچستان میں طاقت کے استعمال پر تشویش کے اظہار کیساتھ نیب کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کی تحسین بھی کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے تحت صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر شہری وسیاسی حقوق کی فراہمی وتحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی کہ بلدیاتی انتخابات نہ کروانے سے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کیساتھ 18 ویں ترمیم کی روح مجروح ہورہی ہے۔ قبائلی علاقوں گلگت بلتستان اور بلوچستان میں انٹرنیٹ کی مؤثر سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں طلباء وطالبات آن لائن تعلیم کی سہولت سے محروم ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں غیراعلانیہ پابندیوں سے آزادی اظہار کو لاحق مسائل ومشکلات کا بھی ذکر کیا گیا۔
سادہ الفاظ میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ اہل اقتدار کو ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ پر جستہ جستہ ہی ایک نگاہ ڈال لینی چاہئے، جن مسائل کی طرف متوجہ کیا گیا ان سے انکار ممکن نہیں۔ آزادی اظہار کے معاملے میں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت، ریاست اور دوسرے طاقتور حلقے سب اپنی اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں۔ عجیب بات ہے حکومت کے مخالف، جمہوریت دشمن، ریاستی پالیسیوں پر تنقید ملک دشمن اور دیگر طاقتوروں کو حقائق کی طرف متوجہ کرنے پر جو بھد اُڑائی جاتی ہے اس کا جواب نہیں۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ یہاں سب تعریف سننا چاہتے ہیں، تعمیری تنقید بھی اب دشمنی لگتی ہے۔ سابق قبائلی علاقوں، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے طلباء وطالبات کے جس اہم ترین مسئلہ کی کمیشن کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے اس کے حل کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کسی تاخیر کے بغیر مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سے قانون کی خلاف ورزی تو ہو ہی رہی ہے لیکن شہری اور دیہی ترقی (بنیادی سہولتوں کی فراہمی) کا سلسلہ بھی رُک گیا ہے۔ ضرورت بہرطور اس امر کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات جلد سے جلد ہوں اور انہیں زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے تاکہ ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان اپنا اصل کام قانون سازی کریں۔ یہاں تو سڑکیں، نالیاں، سیوریج بنوانے کا وعدہ ارکان اسمبلی کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کا کام نہیں، دنیا بھر میں ارکان اسمبلی قانون سازی کرتے ہیں، قومی تعمیر وترقی کے اہداف طے کرتے ہیں اور پھر حکومت کو مجبور کرکے آئینی موت ختم ہونے سے پہلے یہ اہداف حاصل کئے جائیں، ہمارے یہاں باوا آدم ہی نرالا ہے، ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں صحافیوں پر تشدد، اغواء اور انہیں دباؤ میں لانے کے مختلف ہتھکنڈوں کا معاملہ بھی اُٹھایا ہے یہ غلط بھی نہیں صحافیوں کیلئے ہر نیا دن مشکل ہی بنتا جارہا ہے، اصلاح احوال کیلئے حکومت اور صحافی تنظیموں کو مل کر ہی کچھ کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟