2 488

قانون یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس

قانون کی بالادستی سے مراد یہ ہے کہ قانون کی نظروں میں سب برابر ہو اور عدل کی فراہمی میں کسی تعلق، تعصب، جانبداری، ذاتی مفاد اور بدعنوانی کا دخل نہ ہو۔ کوئی بھی خواہ کتنا ہی بااثر، طاقتور اور اعلیٰ منصب کا حامل ہو، قانون سے بالاتر اور ماورا نہ ہو۔ اگر قانون کی بالادستی نہ ہو تو پھر انسانی اختلافات اور تنازعات کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے جو جنگل کا قانون ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں انسانی معاشرے کا ارتقاء اور بقا ممکن نہیں۔ قانون کی بالادستی کے بغیر کسی مہذب معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر معاشرے کا وجود قائم رہتا ہے تو اس کی بنیاد صرف اور صرف عدل وانصاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جن عظیم ہستیوں نے اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا انہوں نے انصاف کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خاتمے کی بات کی۔ ترقی یافتہ یا صحت مند معاشروں نے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا مگر تیسری دنیا کے بیمار معاشروں کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ قانون بالادست طبقات کے فائدے اور منافع اور ان کے اعراض کی پابندی کا نام ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ دنیا کے عظیم فلاسفروں اور دانشوروں نے قانون کا جو بھیانک رخ پیش کیا ہے، بلاشبہ وہی تیسری دنیا کے ملکوں میں نافذالعمل ہے۔ ”تمام ریاستوں میں عدل کا ایک ہی اصول ہے یعنی حکومت کی اعراض کا اتباع اور چونکہ حکومت اور قوت میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اس لئے عدل کی معنی صرف طاقتوروں کی اعراض کا پاس کرنا ہے”افلاطون۔ ” قانون دراصل مکڑی کا جالا ہے جب مچھر اس میں پھنس جاتا ہے تو مزے مزے لیکر اس کا خون چوس لیتا ہے اگر اسی جالے میں کوئی سرخ بھڑ آجائے تو پورے جالے کو اپنے پروں میں لیکر اُڑ جاتی ہے اور مکڑا منہ دیکھتا رہتاہے” سولون دی گریٹ۔ساتویں صدی قبل مسیح میں یونان کے مشہور فقیہہ ڈریکو نے یونان کے رواجی قوانین کا جو ضابطہ مرتب کیا تھا اس کے مطابق قانون کے تحفظ کا حق صرف ریاست کے بااثر لوگوں کو حاصل تھا۔ کمزوروں اورکچلے ہوئے طبقوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے کچھ زیادہ نہیں تھی اور انہیں مار دینا، بیچ دینا اور ظلم وزیادتی کا شکار بنا دینا قانونی طور پر قابل گرفت نہ تھا۔ وہ ہر قسم کے قانونی تحفظ اور انصاف سے محروم تھے۔ وہی قبیح عمل بدقسمتی سے آج کل تیسری دنیا کے ملکوں میں دہرایا جا رہا ہے۔غریبوں اور کمزوروں کیلئے قانون شکنی کی سزا موت اور اسیری ہے لیکن طاقتور اور لٹیروں کیلئے انعام تعظیم وتکریم اور دولت وثروت ہے” قانون طاقتوروں کیلئے اگر نغمہ ساز ہے تو کمزوروں کیلئے موت کی آواز ہے۔ کمزوروں کیلئے اگر تلوار کی دھار ہے تو طاقت والوںکیلئے باغ بہار ہے۔”عدالت کی تمثیل ایک ترازو قرار دی گئی ہے جسے ایک اندھی منصف مزاج تیزرفتار ہاتھ اس طرح لئے بیٹھی ہے کہ اس کے دونوں پلڑے برابر ہے۔ تقدیر نے اسے خاص کرکے اندھا کر دیا ہے تاکہ وہ کسی شخص کے متعلق اس کی ظاہری صورت کی بناء پر رائے قائم نہ کرسکے بلکہ اس کے باطنی جوہر کو تولے۔ لیکن بدقسمتی سے انصاف کی اندھی دیوی کے ہاتھ میں جھولتے ترازو کا پلڑا ہمیشہ زر، زور اور ظالم کے حق میں جھکتا آیا ہے”۔ انصاف مظلوموں کا سرپرست ہونے کے بجائے ظالموں کا طرف دار ہوگیا ہے۔ امراء اور کبریٰ کے مدارج ہیں اسی طرح قانون کے بھی اپنے اپنے مدارج ہیں۔ امیروں کیلئے ایک طرح کا قانون ہے جبکہ غرباء کیلئے دوسری طرح کا اور پھر وہی قانون اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے، دوسرے لفظوں میں امراء اور کبریٰ شاہی خاندن ہیں اور جو قوانین عام شہریوں پر نافذ ہوتے ہیں، وہ شاہی خاندان کے افراد پر نافذ نہیں ہو سکتے۔ ”قانون کی حکمرانی” اور” قانون کی نظروں میں سب برابر” جیسے خوبصورت الفاظ صرف آئین کے صفحات تک محدود ہیں اور عملی طور پر قانون بااثر طبقوں کے جنبشوں کے فرمان کا اسیر ہے۔ ”انصاف کو مظلوم اور مقہور کی دہلیز تک پہنچانے کی حکومتی نعرے ہر دور میں کچے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کے سیاسی کچرا گھر کا پیٹ بھرتے رہے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی کیلئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ غریب تو ان اونچے ایوانوں میں پھٹک بھی نہیںسکتے۔ ان حالات میں وہ حقوق کی جنگ کس طرح لڑ سکتے ہیں کیونکہ حقوق تو انہیں میسر نہیں ہوتے نتیجے کے طور پر وہ اپنے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی چپ چاپ سہتے رہتے ہیں لیکن احتجاج نہیں کرسکتے۔ وہ اپنی بے نور یا پھٹی پھٹی آنکھوں میں انصاف کے مردہ خانے سجائے خاموش ہو جاتے ہیں اور ان کیخلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد پورے ریاستی اور معاشرتی تحفظ کیساتھ، اسی طمطراق کیساتھ زندگی بسر کرتے ہیں جیسا کہ وہ پہلے کرتے تھے۔ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا کیونکہ ان کے پیچھے ریاستی اداروں اور ریاست کی قوت موجود ہوتی ہے اور پھر وہ کس بھروسے پر انصاف کا دروازہ کھٹکٹھائے وہاں ان کی جو ”عزت افزائی” ہوتی ہے یا انہیں ان کی ”حیثیت اور اوقات” کا جو احساس دلایا جاتا ہے وہ ان کے لاشعور میں بیٹھ کرمرتے دم تک انہیں ڈستا رہتا ہے اور ان کی قوت مدافعت ختم کرکے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بے حرکت اور بے حس بنا دیتا ہے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن