3 390

سراپا شکوہ، سراپا مذمت

اختلاف رائے ہونا ایک صحت مند معاشرے کی علامت ہے لیکن اختلاف رائے ہونا ایک طرف اور محض اپنے اندر کی کڑواہٹ کا اظہار کرنا دوسری طرف۔
ہم اختلاف رائے نہیں رکھتے کیونکہ اختلاف رائے کیلئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، منطق کی ضرورت ہوتی ہے، علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم بحیثیت قوم ہر بات کے حوالے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں اس کیلئے ہمیں نہ علم کی ضرورت ہے نہ منطق کی اور نہ ہی دلیل کی۔ ہم اپنے اندر کی جھنجھلاہٹ پریشانی اور کڑواہٹ کو دور کرنے کیلئے اختلاف کرتے ہیں لیکن جس اختلاف وانکار کی جڑ دلیل میں نہ ہو بلکہ نفرت میں، کڑواہٹ میں ہو، وہ اپنے اظہار سے پھیلتی ہے جسے جنگل میں آگ، بڑھتی اور بھڑکتی ہے جیسے سوکھی لکڑی کے ڈھیر میں جاپڑی ہو اور سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ اس میں ہر بات عقل ودانش اور راستہ سب ہی جل جاتے ہیں۔ ہر بار یہی ہوتا ہے یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔ نہ حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی ہمارے رویوں میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔
اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے، فردوس عاشق اعوان نے اپنے مخصوص روئیے کیساتھ اے سی سیالکوٹ کو سرعام سرزنش کی۔ سیاستدانوں کا یہ رویہ بیوروکریسی کیلئے کچھ نیا نہیں۔ اکثر ہی بیوروکریسی سیاستدانوں کے اس روئیے کا شکار ہو تی ہے۔ مریم نواز کو آج فردوس عاشق اعوان کے اس روئیے میں فرعونیت نظر آرہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میاں شہباز شریف بیوروکریسی کیساتھ اپنی فرعونیت کے حوالے سے مشہور تھے۔ کئی سیاستدان اپنے دورحکومت میں سرکاری میٹنگز میں گالم گلوچ کرتے رہے ہیں، میں یہ بات کسی طور بھی فردوس عاشق اعوان کے روئیے کی پردہ پوشی کیلئے نہیں کررہی، یہ رویہ جب بھی کسی کا بھی ہو انتہائی غلط ہے افسوسناک ہے قابل مذمت ہے اور اس روئیے کی کبھی بھی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔ تاسف یوں بڑھتا جاتا ہے کہ سیاستدان اس سارے وقوعے کو اپنے اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
بیوروکریسی کو اپنے پرانے دُکھ یاد آرہے ہیں اور اس واقعے کا میرٹ کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے بجائے کئی لوگ ایسے ہیں جو محض افسر شاہی کے حوالے سے اپنے جذبات کے اظہار کیلئے اس کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ واقعہ ہمارے معاشرے کے رویوں کا عکاس ہے۔ اس بچی نے انتہائی تحمل سے فردوس عاشق اعوان کی نامناسب گفتگو کا سامنا کیا۔
اپنی عزت کا پاس بھی رکھا اور موقع سے ہٹ کر معاملات میں کسی بھی مزید بگاڑ کا راستہ بھی روک دیا۔ فردوس عاشق اعوان کا رویہ انتہائی نامناسب بھی تھا اور اصولی طور پر غلط بھی۔ ان کی موجودہ پوزیشن انہیں کسی بھی سرزنش، پوچھ تاچھ اور تادیبی روئیے کو اپنانے کی اہل نہیں کرتی۔ ہمارے سیاستدانوں کیلئے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ حکومت کرنے کے کچھ ضابطے اور اصول ہیں۔
ان ضابطوں اور طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی بھی عمل غیرقانونی ہوتا ہے جس میں دوسری طرف کے لوگوں کو قانونی چارہ جوئی کی اجازت ہوتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں سے اکثریت اس ضابطہ اخلاق سے واقف ہی نہیں اور انہوں نے کبھی اس ضابطہ اخلاق کے بارے میں جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔
موجودہ حکومت کا دعویٰ ایک پڑھی لکھی اور ضابطہ اخلاق کو ماننے والی حکومت کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گزشتہ سیاستدانوں کے رویوں کے حوالے سے مسلسل بات چیت بھی کرتے ہیں، تبدیلی کا دعویٰ بھی ہے، اس لئے فردوس عاشق اعوان کو بھی اس معاملے پر بے وجہ اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اور اسسٹنٹ کمشنر کی دل آزاری پر معافی مانگ لینی چاہئے۔ پرانے لوگ کہا کرتے تھے کہ شاخ ثمربار کو جھک جانا چاہئے۔ انہیں بھی اس بات کو ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ جہاں تک بات بیوروکریسی کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس حکومت کی ترجیحات میں درست لوگوں کا انتخاب بھی شامل نہیں۔ پھر اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ ہمارے عوام کسی کے بھی کام کو کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ وہ ہر حالت میں ہر بات کیخلاف ہی رائے رکھتے ہیں۔ سیاسی لیڈر بیوروکریٹ کیساتھ بدتمیزی کرے تو انہیں بیوروکریسی سے شکایت۔ کوئی سیاستدان گزشتہ حکمرانوں کی پیداکردہ پریشانیوں سے نالاں ہو تو انہیں سیاستدانوں سے شکایت، اپنے حالات سے شکایت، اردگرد کے واقعات سے شکایت ہم میں سے ہر ایک خواہ وہ کسی بھی عنوان کی لائن میں لگا ہو دوسروں کی غلطیوں سے پوری طرح واقف ہے اور ناراض ہے۔ اپنا کیا نہ کسی کو نظر آتا ہے نہ ہی اپنی غلطی کا احساس کبھی جنم لیتا ہے۔ ہم یا تو سراپا شکوہ ہیں یا سراپا مذمت۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ