4 372

موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز کی تعمیر کے منصوبے

انسانی ترقی کا عمل راستوں کی دستیابی اور تعمیر سے وابستہ ہے، جہاں سڑک کی تعمیر شروع ہوتی ہے، ترقی کا عمل ازخود ارتقائی منازل طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ عہدحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ جدید خطوط پر استوار مربوط مواصلاتی نظام کسی بھی ملک کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کیساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے فروغ کا بھی اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو آئیڈیل جغرافیائی لوکیشن کے پیش نظر خطے میں تجارتی نقطہ نظر سے اہم مقام حاصل ہے۔ اس کلیدی پوزیشن سے تمام تراستفادہ اور اندرون ملک بڑھتی اقتصادی سرگرمیوں کے پیش نظر ضروری ہے کہ مواصلاتی نظام کو بھی جدیدضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ملک میں موٹرویز، قومی شاہرات، سٹریٹجک روڈز، پلوں اور سرنگوں کی پلاننگ، تعمیر، آپریشن اور مرمت کاکام وزارت مواصلات کے ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سپرد ہے۔ اس وقت ملک میں روڈ نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی تقریباً 264000 کلومیٹر ہے جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر کنٹرول51سڑکوں کی لمبائی 13572 کلومیٹر ہے، جن میں 11255 کلومیٹر38قومی شاہرات، 2055 کلومیٹر10موٹرویز اور 262کلومیٹر 3سٹریٹجک روڈز شامل ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی سمجھتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے فنی، انتظامی اور مالی وسائل، اتھارٹی کی کوششوں میں فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں چنانچہ تفصیلی غور و خوض کے بعد این ایچ اے نے موٹرویز اور قومی شاہرات کے کئی اہم منصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا۔ اس عمل سے نہ صرف تعمیری صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ نجی شعبہ کی شمولیت سے قومی خزانہ پر بوجھ بھی کم ہوگا۔ اس حوالہ سے وفاقی وزیر مواصلات وپوسٹل سروسز مراد سعید نے این ایچ اے کے تمام انجینئرز، ماہرین تعمیرات اور انتظامی امور سے وابستہ اعلی افسران پر زور دیا ہے کہ وطن پاک میں تعمیری عمل کو مزید تیز کرتے ہوئے موٹرویز کے طے شدہ منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ ملک میں قومی خزانہ پر بوجھ ڈالے بغیر زیادہ سے زیادہ سڑکیں تعمیر ہوسکیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بلاشبہ ملکی تعمیر وترقی کا ضامن ہے ،جس سے تعمیراتی شعبہ کو فروغ دیکر صنعت وتجارت سمیت تمام تر شعبوں میں برق رفتار ترقی لانے کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔تعمیر وترقی کے اس سفرکی منزل یقینا ایک روشن درخشاں اور نیا پاکستان ہے، جس میں نئی نسل پُرامن اور پُراطمینان زندگی گزار سکے گی۔ موجودہ حکومت کا وژن ہے کہ 2030تک سڑکوں کی تعمیر وتوسیع میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ آئندہ سالوں میں پاکستان کی تجارتی ضروریات اور خطہ میں مستقبل کی علاقائی تجارتی سرگرمیوں کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کا تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی چین، پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) اور سنٹرل ایشیاء ریجنل اکنامک کوآپریشن پروگرام (کیریک) کے تحت ملک بھر میں سڑکوں کی تعمیر اور اپ گریڈیشن کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے، جس کا بنیادی مقصد ملک میں معاشی اور معاشرتی ترقی کی رفتار تیز کرنا ہے۔ وزارت مواصلات کے ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی) کی بنیاد پر موٹرویز کی تعمیر کیلئے عملی پیشرفت کی ہے اور اب این ایچ اے کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں پی پی پی ضروری عنصر کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر شروع کئے جانے والے منصوبوں میں دیگر امور کے علاوہ روڈ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، پائیدار ترقی، آف بجٹ فنانسنگ، کارکردگی، سرمایہ کاری اور ریونیو کا حصول جیسے مقاصد شامل ہیں۔ اسلام آباد کے قریب بارہ کہو کے مقام پرN-75پر فلائی اوور کی تعمیر کا منصوبہ بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر زیر غور ہے، جس سے بارہ کہو میں ٹریفک کے رش کو ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس فلائی اوور کی لمبائی4 کلومیٹر ہو گی۔ لاہور کے قریب N-5پر شاہدرہ فلائی اوور کی تعمیر کا منصوبہ این ایچ اے کی ترجیحات میں شامل ہے۔ 7کلومیٹر طویل یہ فلائی اوور شاہدرہ کے مقام پر جی ٹی روڈ پر ٹریفک کو منضبط کرنے میں بہت معاون ثابت ہو گا اور ٹریفک کی روانی کے باعث وقت اور پٹرول کی خاطر خواہ بچت ہو گی ۔ واضح رہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے شمالاً جنوباً جدید موٹروے سسٹم کے قیام کیلئے پشاور۔کراچی موٹروے کا منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں تک تیز رفتار ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کرنا ہے، تاکہ چین، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کیساتھ تجارتی سرگرمیوں کو صحیح معنوں میں عملی شکل دی جاسکے۔ موٹرویز اور قومی شاہرات کی تعمیر و توسیع کے منصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پرائیویٹ سیکٹر کو تعمیری شعبہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا اور ملک میں سڑکوں کی تعمیر سہل اور تیز تر ہوگی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟