5 387

یورپی یونین کا ناموسِ رسالت پر حملہ

یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہین رسالت کے قانون پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم کرنے کیلئے نظر ثانی کی قرارداد منظوری کرلی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ قرارداد یورپی پارلیمنٹ کی ایکسٹرنل ایکشن سروس سے وابستہ ماہرین نے پیش کی ہے جس میں یورپی یونین سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے جی ایس پی پلس درجے پر نظرثانی کرے یا اسے عارضی طور پر ختم کردے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی قرار داد کی یورپی قوانین میں کیا اہمیت ہے۔ یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق(ای ایچ سی آر)نے25اکتوبر 2018 کو اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ پیغمبر ِ اسلام کی توہین آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے اوراس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ پیغمبر ِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے اور آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون، جس کا نام ظاہر کرنے کے بجائے اسے صرف ای ایس کہا جاتا ہے کی اپیل کیخلاف فیصلے میں کہا تھا، اس خاتون نے2008 اور 2009میں اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات کے عنوان کے تحت مختلف تقاریر میں پیغمبر ِ اسلام کے بارے میں چند کلمات ادا کیے تھے جن کی پاداش میں ان پر ویانا کی ایک عدالت میں مقدمہ چلا اور عدالت نے انہیں فروری2011میں مذہبی اصولوں کی تحقیر کا مجرم قرار دیتے ہوئے 480یورو کا جرمانہ، مع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ قبل ازیں اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ اس کے علاوہ2013میں آسٹریا کی عدالت عظمی نے بھی اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا۔ 2018 میں ای سی ایچ آر نے کہا تھا کہ آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔ یورپی عدالت نے قرار دیا کہ شق10کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں واقع ای ایچ سی آر نے فیصلہ دیا کہ آسٹریا کی عدالت نے خاتون کو سزا دیتے وقت ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کا بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے۔ یہ فیصلہ ججوں کے سات رکنی پینل نے دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آسٹریا کی عدالت نے مذہبی امن و امن برقرار رکھنے کے جائز حق کی پاسداری کی ہے۔ آسٹریا کی عدالت کے فیصلے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم ای ایچ سی آر نے فیصلہ صادر کیا کہ ای ایس خاتون کے بیانات معروضی بحث کی جائز حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور انہیں پیغمبر ِ اسلام پر حملہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس قرار داد کے متعدد نکات میں بطورِ خاص پاکستان میں توہینِ رسالت کی سزا کے قانون آرٹیکل 295بی اور سی کا باربار ذکر کے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے جس پر یورپی پارلیمنٹ نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ مثلا ایک مقام پر کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے معاملے میں صحافیوں پر آن لائن اور آف لائن حملوں میں اضافہ ہوا۔ قرارداد میں کم سے کم تین جگہوں پر فرانس کی تائید کی گئی ہے اور پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو ہراساں کرنے کی روک تھام اور پاکستان میں رہائش پزیر فرانسیسی باشندوں کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس (ای ای اے ایس) فوری طور پر پاکستان کو دیے جانے والے جی ایس پی پلس درجے پر نظرثانی کرے یا اسے جزوقتی طور پر موقوف کرکے پاکستان پر دباو بڑھائے۔ قرارداد میں متعدد مرتبہ شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثر کا ذکر کیا ہے جو آرٹیکل295بی کے تحت گرفتار ہیں۔لیکن اس قدر سخت قرار داد پر پاکستان کا جواب انتہائی نرم و نازک اور پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے کے مصداق ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ یورپین پارلیمنٹ میں گفتگو سے پاکستان میں توہین رسالت قوانین اور مذہبی حساسیت کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار ہوتا ہے۔
یورپ کے اکثر ملکوں میں ہولوکاسٹ (دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام) سے انکار جرم کے زمرے میں آتا ہے، اس کے علاوہ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کیخلاف1905 سے قوانین موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان جنرل ضیا الحق کے بعد تمام حکمرانوں نے توہین ِ رسالت کے قوانین میں ترمیم کی کوشش کی ہے جن میں پی پی پی اور ن لیگ اور اب تحریک ِ انصاف کی حکومت شامل ہے۔ حکمرانوں نے توہین ِ رسالت کے قانون پر دو ٹو فیصلہ کبھی بھی نہیں لیا اور اسی کمزوریوں نے آج یورپی یونین نے اس بات کی جسارت کی ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی