3 392

ویکسین کی عدم دستیابی ذمہ دار کون؟

چین کے شہر ووہان سے جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو طبی ماہرین نے اسی وقت خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ وبا جلد ختم ہونے والی ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس وبا سے متاثر ہونے سے بچانا ممکن ہے، پوری دنیا میں پیدا ہونے والے کورونا وائرس کے مہلک اثرات نے ان خدشات کو درست ثابت کیا، متوقع خطرات کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک نے ویکسین کی تیاری شروع کر دی، مگر کچھ ممالک وبا کے ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے، پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے، یوں ہم کورونا کی ہلاکت خیزی سے اپنے شہریوں کو بچانے کیلئے دیرپا منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے، آج ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کورونا تباہی مچا رہا ہے، وہاں سے جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں وہ ہمارے لئے الارمنگ ہونی چاہئے۔ پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر خطرناک ثابت ہوئی ہے، پہلی اور دوسری لہر میں ہمارے کم آبادی والے علاقے اور گاؤں دیہات محفوظ تھے مگر اب کورونا وائرس گاؤں دیہات تک بھی پہنچ چکا ہے، تاہم گاؤں دیہات کے لوگ اسے سنجیدہ لینے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی کورونا ٹیسٹ کروا رہے ہیں، اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کیسز کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اب زندگی پہلے جیسی نہیں رہے گی، کیونکہ کورونا جلد ختم ہونے والا نہیں ہے، آئندہ کی زندگی کورونا کیساتھ ہی گزارنی ہوگی، ایسا ممکن نہیں ہے کہ طویل عرصہ تک بازار اور کاروبار کو بند رکھ کر لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کرایا جا سکے، پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، عوام کو طویل عرصہ تک گھروں میں بند رکھنا بھی مشکل ہے، لے دیکر ویکسین کا راستہ ہی باقی بچتا ہے سو ہمیں اس طرف سنجیدگی کیساتھ سوچ کر اس کا دیرپا حل نکالنا ہوگا۔ جن ممالک نے اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کا عمل جلدی سے مکمل کیا ہے وہاں پر کورونا مثبت کیسز کی شرح نہایت کم ہے، گزشتہ دنوں امریکی حکومت نے جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں اس کے مطابق ایسے آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ افراد جنہیں ویکسین لگائی جا چکی ہے ان میں سے صرف سات ہزار افراد کو دوبارہ کورونا ہوا ہے، ویکسین لگوانے والے ساڑھے آٹھ کروڑ افراد میں سے صرف 77 ایسے تھے جو کورونا سے دوبارہ متاثر ہوئے اور ان کی موت بھی واقع ہو گئی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا کیخلاف ویکسین کارگر ہے، تاہم پاکستان اپنے شہریوں کو آبادی کے لحاظ سے ویکسین فراہم کرنے میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت پیچھے ہے، اب تک پاکستان میں سرکاری سطح پر ویکسین کی 45لاکھ 60ہزار ڈوز پہنچی ہیں جن میں سے 20لاکھ ڈوزز چین کی جانب سے عطیہ کی گئی ہیں اور 25لاکھ خوراکیں حکومت کی جانب سے خریدی گئی ہیں، 22کروڑ آبادی کی ضرورت کو سامنے رکھیں تو 45لاکھ ڈوزیں بہت کم ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اب تک 20لاکھ سے زائد لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے، جس میں 8لاکھ کے قریب ہیلتھ ورکرز شامل ہیں، آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔ وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق حکومت کا ہدف ہے کہ وہ ملک میں اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے افراد کو ویکسین فراہم کر سکے، یہ دس کروڑ کے قریب تعداد بنتی ہے جس رفتار سے شہریوں کو ویکسین کی ڈوز دی جارہی ہے اگر صورتحال ایسے ہی رہی تو ویکسین لگانے کا عمل 2023ء تک جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کا ہدف 2021ء میں پورا کر لیں گے جبکہ بھارت ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہونے کے باوجود 2022ء میں یہ ہدف پورا کرے گا، خطے کے دیگر ممالک کے حساب سے دیکھا جائے تو پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوگا جو تاخیر سے ویکسین لگانے کا ہدف پورا کریں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے شہریوں کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ویکسین لگانے کی کوئی عملی شکل دکھائی نہیں دیتی، حکومت پُراُمید ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کیلئے ویکسین فراہمی کے کوویکس پروگرام کے تحت پاکستان کو پہلے مرحلے میں 30جون تک ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ویکسین کی خوراکیں مل جائیں گی۔ یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت کو ویکسین کیلئے طویل عرصہ تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ایسے حالات میں حکومتی وزراء کی طرف سے اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اگلے چند ماہ میں پانچ کروڑ آبادی کو ویکسین لگانے کا ہدف پورا کر لیں گے تو عقل اسے ماننے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری جانب امریکی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میںکورونا کیسز میں غیرمعمولی اضافے کے نتیجے میں مئی کے وسط تک عالمی سطح پر ایک دن میں وائرس کا شکار افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اگرچہ ویکسین لگوانے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اس کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث عام شہری افورڈ نہیں کر سکتا ہے، اگر ویکسین کی عام دستیابی اور قیمت کنٹرول کی جاتی تو شاید کروڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے خرچے پر ہی ویکسین لگوا لیتے۔ کورونا ویکسین کی عام دستیابی یقینی بنانا ہی مسئلے کا حل ہے اس ضمن میں جس قدر تاخیر کی جائے گی تباہی کا باعث بنے گی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟