4 374

سکندراعظم دیوجانس کلبی کے درپر

دیوجانس کلبی یونان کا ایک عجیب وغریب کردار تھا، جسے انسانی تاریخ کا بہت بڑا متوکل اور بہت بڑا قناعت پسند فلسفی مانا جاتا ہے۔ وہ سارا دن جنگلوں اور ویرانوں میں مارا پھرتا تھا اور شام کو اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا تھا۔ یہ ٹھکانہ کچی مٹی کا ایک چھوٹا سا ٹب تھا، وہ ٹب میں لیٹتا’ ٹانگیں باہر لٹکاتا اور آسمان کے تارے گنتا گنتا سو جاتا، یہ ٹب ہی اس کی کل کائنات تھا۔ دیوجانس کلبی کا ایک تاریخی قول جو آنے والے زمانے میں اس کا پہچان بن گیا ”اگر انسان قناعت پسند ہو تو مٹی کے اس ٹب میں بھی خوش رہ سکتا ہے لیکن اگر وہ حریص ہوجائے تو یہ پوری کائنات بھی اس کیلئے چھوٹی ہے”۔ ایک دفعہ افلاطون سے پوچھا گیا کہ دیوجانس کلبی کیسا آدمی ہے؟ افلاطون نے جواب دیا، ”ایک سقراط جو دیوانہ ہوگیا ہے”۔ ایک دن سکندر یونانی گھوڑے سے اُتر کر دھوپ میں لیٹے دیوجانس کلبی کے سامنے آکھڑا ہوا تو دونوں کے درمیان گفتگو کچھ یوں ہوئی۔”میں سکندر اعظم ہوں” سکندر نے کہا۔”جو شخص اپنی عظمت کا اعلان کرے’ وہ عظیم نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ عظمت کو اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی’ یہ تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی” دیوجانس نے جب یہ کہا تو سکندر دم بخود کھڑا رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کوئی اس انداز سے بھی اسے مخاطب کرسکتا ہے تاہم وہ اس سے بہت متاثر تھا۔”کیا تم مجھ سے خوفزدہ نہیں ہو؟” سکندر نے پوچھا۔”تم اچھے ہو یا برے؟” دیوجانس نے اُلٹا سوال داغا۔”اچھا” سکندر نے جواب دیا۔”پھر تم سے ڈرنا کیسا؟ ویسے مستقبل کا ارادہ کیا ہے؟” دیوجانس نے پوچھا۔”پورے یونان کی فتح” سکندر نے جواب دیا۔”اور اس کے بعد؟” دیوجانس نے پوچھا۔”اس کے بعد ایشیا کوچک کی فتح” سکندرنے جواب دیا۔”پھر۔۔۔؟” دیوجانس نے پوچھا۔”پھر پوری دنیا کی فتح اور حکمرانی” سکندر نے بتایا۔ ”اور اس کے بعد؟” دیوجانس نے پوچھا۔ ”آرام اور چین کی زندگی” سکندر نے جواب دیا۔”چین اور آرام کی زندگی تم ابھی بھی شروع کرسکتے ہو، اس کیلئے ایک بڑے پیمانے پر کیا خون بہانا ضروری ہے؟” دیوجانس نے حیرت سے استفسار کیا۔سکندر لاجواب ہوکر کہنے لگا ”دنیا کی کوئی نعمت’ کسی آسائش کی طلب ہو تو مجھے بتائیے، آپ کی خدمت میں حاضر کردی جائے گی”۔”ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوجاؤ تاکہ دھوپ مجھ تک پہنچ سکے” دیوجانس نے کہا۔لوگ دولت، شہرت اور طاقت کو آخر کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کی تہہ تک پہنچنے کی ہم نے بہت کوشش کی مگر بے سود! بالآخر اس سوال کا جواب ہمیں ایک صوفی سے ملا۔
”خواہش حقیقتاً ان چیزوں کی خواہش نہیں ہے، یہ تو وسعت کی خواہش ہے، ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ وسعت چاہتے ہیں، وہ مزید پھیلنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں انسان کو وسعت پانے میں مدد دیتی ہے۔ یہ محسوس کرکے انہیں سخت اذیت ہوتی ہے کہ ان کی حدیں ہیں کیونکہ حدوں کے ہونے کا مطلب ہے مقید ہونا، اسلئے وہ ان چیزوں کی خواہش کرتے ہیں اور یہ خواہش کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کی پیاس لامحدود ہے، کسی اختتام سے آشنا نہیں، اندر گہرائی میں وہ کھوکھلا ہوتے ہیں، اس لئے وہ اس کھوکھلے پن کو بھرنے کیلئے کسی نہ کسی شے کی طلب گار ہوتے ہیں۔
یہ دولت، طاقت، عزت، شہرت، کوئی شے بھی ہو سکتی ہے۔ درحقیقت وہ اپنی داخلی کھوکھلے پن کو بھرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کھوکھلے ہی رہتے ہیں، مضطرب رہتے ہیں۔ اس بیزاری سے نجات پانے کیلئے وہ مجالس عیش وعشرت، سیر وسیاحت اور ہنگامہ ناؤ نوش میں پناہ لیتے ہیں اور حظ ولذت ہی کو مسرت سمجھتے ہیں۔
حظ ولذت کی خاصیت یہ ہے کہ ایک تو وہ وقتی ہوتی ہے، دوسرے اس کے نتائج بڑے ناخوشگوار ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ داد وعیش دینے کے بعد ان پر یہ تلخ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ خوشی سے بدستور محروم ہیں۔ اس کا یہ عقیدہ کہ دولت، طاقت اور شہرت سے خوشی ملتی ہے، باطل ثابت ہوتا ہے اور اپنی تگ ودو کی بے حاصلی اور بے مصرفی کے احساس سے وہ خلل ذہن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی ساری آرزوئیں پوری ہوچکی ہیں، سارے ارمان نکل چکے ہیں اب کس بات کی تمنا کریں جو ان کے ٹھٹھرے ہوئے افسردہ دلوں میں نئے سرے سے ولولہ حیات پیدا کرے، ان کیلئے مزید جینے کا جواز باقی نہیں رہتا، ایک جیسی لذتوں سے ان کا دل بھر جاتا ہے اور ایک جیسی زندگی سے اُکتا جاتے ہیں۔ وہ افسوس کرتے ہیں تو ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، وہ سوچتے ہیں اور سوچ کر عاجز ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے کیا چاہا، کیا سوچا اور کیا پایا۔ موت آتی ہے اور تمام تر کاوشیں کالعدم ہوجاتی ہیں اور کچھ عرصہ اس کی تصویریں دیواروں اور البموں سے ہٹائے جاتی ہیں اور کسی کو یاد نہیں رہتا کہ وہ تھا بھی کہ نہیں”۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''