logo 76

مشرقیات

حضرت نوح نے اپنی قوم کو دین کی طرف مائل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی، ہر ہر طریقہ سے انہیں سمجھایا، فرمایا:”اے میری قوم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں، تم کو برے دن سے ڈراتا ہوں، اے قوم! میری بات مان لو، میں تمہارے فائدہ کیلئے کہتا ہوں، اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ میری کوئی غرض ہے، اے قوم! خدا سے ڈرو، اس کی عبادت کرو، وہ تمہارے تمام گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہارے گھر میں، تمہارے رزق میں اور تمہارے اولاد میں برکت عطا فرمائے گا۔ اے قوم! تم اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گئے، تم کو اور تمہارے چاروں طرف عجائبات اور دلکش مناظر کس نے بنائے؟ ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ ان کی طرف کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں غور کرتے، آسمان کو دیکھو، زمین کو دیکھو، چاند، سورج، تاروں کو دیکھو، جس پر نظر ڈالو گے، اس کی قدرت کے کھیل نظر آئیں گے۔یہ آسمان کس نے بنایا ہے، آسمان کو چاند، سورج، تاروں سے کس نے رونق بخشی؟ زمین جس پر تم چلتے پھرتے ہو اور آرام کرتے ہو، یہ کس نے بنائی؟ تم کو کس نے پیدا کیا اور کون تمہیں رزق دیتا ہے؟ تم بیمار ہوتے ہو تو کون تمہیں شفا دیتا ہے؟ بارش کس کے حکم سے ہوتی ہے؟ تم پر آئی ہوئی مصیبت کون ٹالتا ہے؟حضرت نوح نے بے شمار طریقوں سے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش فرمائی لیکن خدا تعالیٰ جس کو گمراہ کرے، اس کو پھر کون ہدایت دے سکتا ہے؟۔ اس وجہ سے قوم نے حضرت نوح کی کوئی بات نہیں مانی اور نہ ایمان لائے، وہ حضرت نوح کی بات کو سنتے تک نہ تھے، مانتے کیسے اور ایمان کیسے لاتے؟ معلوم ہوا کہ صراط مستقیم پر چلانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی سے ہدایت مانگنی چاہئے۔امام مالک کو ”امام المدینہ المنورہ” کہا جاتا ہے، وہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور انہیں رسولۖ سے اتنی عقیدت ومحبت تھی کہ سوائے حج کے کبھی مدینہ سے باہر نہیں گئے۔ ایک مرتبہ ہارون الرشید نے حضرت امام مالک سے عرض کی کہ آپ ہمیں ہمارے گھر آکر پڑھا دیا کریں، حضرت امام صاحب نے فرمایا: علم کے پاس جایا جاتا ہے، وہ کسی کے پاس آتا نہیں، یعنی اگر آپ کو علم حاصل کرنا ہے تو آپ کو درس میں حاضر ہونا ہوگا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم آپ کے پاس آکر آپ کو علم سکھائیں۔یہ سن کر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا: اچھا میں خود آپ کے پاس آؤں گا لیکن پھر جب وہ پڑھنے کے لئے آیا تو امام مالک سے عرض کی کہ ذرا ان غریب لوگوں کو دور کر دیجئے تاکہ میں خصوصیت کے ساتھ آپ سے علم حاصل کروں۔ حضرت امام مالک نے فرمایا: نہیں! ہمارے یہاں یہ طریقہ نہیں ہے، ان غریبوں کی برکت سے ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے، پھر ہارون الرشید نے قرأت شروع کی اور دیگر لوگ بھی بیٹھے رہے، یہاں تک کہ غریب لوگ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے۔ (تاریخی واقعات)

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟