p613 335

افغان امن عمل کی حمایت کا اعادہ

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پُرامن افغانستان کا مطلب پُرامن پاکستان ہے۔ پاکستان افغان عمل کا حامی ہے، گزشتہ روز کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان عمل میں ہر قدم پر افغان قیادت کیساتھ کھڑا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے بامعنی مذاکرات پر اظہار تشکر کرتے ہوئے پاکستان کے مخلصانہ کردار کو سراہا۔ آرمی چیف نے افغان صدر سے سیکورٹی، دفاعی تعاون اور بارڈر منیجمنٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دیرپا افغان امن کیلئے پاکستانی عسکری قیادت کی جانب سے افغان قیادت کو یقین دہانی پاکستانی ریاست اور عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی ہر کوشش کا پاکستان نے نہ صرف ہمیشہ خیرمقدم کیا بلکہ ان کوششوں کو کامیاب بنانے کیلئے غیرمشروط تعاون بھی۔ یہ امر ہر کس وناکس پر دوچند ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن نہ صرف افغانستان اور پاکستان کیلئے ضروری ہے بلکہ اس سے خطے میں تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ گزشتہ 40برسوں سے افغان عوام جن مصائب ومشکلات سے دوچار ہوئے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ افغانستان میں منتخب قیادت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنا کر ہی افغان عوام کو مسائل ومشکلات سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ پاکستانی عسکری قیادت کا حالیہ دورہ افغانستان اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ اس وقت میں ہوا جب امریکہ اور نیٹو انخلاء کے عمل کا آغاز کر چکے۔ صدر اشرف غنی سے جنرل باجوہ کی ملاقات کے موقع پر برطانوی چیف آف سٹاف جنرل سرنکولس پیٹرک کارٹر بھی موجود تھے، اس موقع پر انہوں نے بھی خطے میں استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک مستحکم اور پُرامن افغانستان سے جہاں داخلی تضادات کم ہوں گے وہیں پڑوسی ممالک میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین اپنے مادر وطن واپس جانے کا خواب پورا کرسکیں گے۔ افغان معاہدہ امن پر عمل سب کے مفاد میں ہے، متحارب افغان گروہوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ طاقت کے بے رحمانہ مظاہرہ سے وہ اپنے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کریں گے، چالیس برسوں سے عذاب جھیلتے افغان عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کیلئے پُرامن اور ترقی کے اہداف کے حصول کی طرف بڑھتا افغانستان تعمیر کریں لیکن یہ اس صورت ممکن ہے جب اس سوچ کو پذیرائی حاصل ہو کہ پُرامن اور مستحکم افغانستان کیلئے ضروری ہے کہ بندوق کی طاقت سے فیصلے کرنے کی بجائے ووٹ کی طاقت سے فیصلے ہوں اور وارلارڈز کی جگہ قانون کی بالادستی قائم ہو۔ امریکہ اور نیٹو کے افغانستان سے انخلاء کا پروگرام سامنے آنے کے بعد افغانستان میں دہشتگردی کے جو واقعات ہوئے ان پر پڑوسی ممالک اور خصوصاً پاکستان کی تشویش بجاطور پر درست ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغان قیادت کو کسی تاخیر کے بغیر اپنی سرزمین پر موجود ان عسکری گروپوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی جو افغان عمل کو متاثر کرنے کیساتھ ساتھ پڑوسی ملکوں میں امن وامان کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ طالبان کی قیادت کو بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے امن واستحکام کے خواب آنکھوں میں سجائے افغان عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نظام اور قیادت کے بارے میں خود فیصلہ کریں، ان پر کوئی حل مسلط نہ کیا جائے۔ پاکستانی ریاست اور عوام کی افغان امن میں دلچسپی کی بنیادی وجہ اولاً پڑوسی ہونا ہے، ثانیاً اسلامی اخوت کا رشتہ اور ثانیاً بارڈر کے دونوں جانب کی پشتون آبادی جو ایک دوسرے کے دُکھ درد سے لاتعلق نہیں رہ سکتی، جنگوں اور خانہ جنگیوں کے عذاب سہتے افغان عوام کو امن، باوقار زندگی، جدید دور کی سہولیات اور ہر وہ چیز ملنی چاہئے جو دنیا میں آج کے انسان کو حاصل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ممکن طریقہ سے قانون کی بالادستی قائم ہو اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ باہمی اختلافات مل بیٹھ کر طے کر لئے جائیں تاکہ کوئی تیسری طاقت ان اختلافات سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔ پاکستانی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا حالیہ دورہ کابل پاکستان کی افغان عوام کیلئے محبت اور نیک جذبات کیساتھ قیام امن سے خصوصی دلچسپی کا مظہر ہے۔افغانستان میں پائیدار امن کے قیام سے جہاں پورے خطے میں بہتری آئے گی وہیں اس سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔ افغان امن اس تجارتی شاہراہ کے محفوظ ہونے کی ضمانت ہوگا جو دنیا بھر کے کاروباری طبقات کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی دے گی۔ ہمیں اُمید ہے کہ افغان قیادت صرف آج کیلئے نہیں بلکہ اپنے کل اور افغانوں کے روشن اور محفوظ مستقبل کیلئے حوصلہ مندی کیساتھ مسائل پر قابو پالے گی اور اس افغان عوام ان مسائل ومشکلات سے ہمیشہ کیلئے نجات پالیں گے جو پچھلے چالیس برسوں سے انہیں خون رُلا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت