2 493

مسائل وشکایات ،روزاول سے ہنوز

قارئین کے مسائل اور شکایات پر مبنی اس کالم کی اشاعت کے تقریباًدوسال ہوچکے، اس ہفتہ وار کالم میں درجنوں افراد بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ کے مسائل شامل اشاعت ہوئے۔ مختلف سرکاری محکموں کے بارے میں بڑی سنجیدہ شکایات کی گئیں، دستاویزات کی نقول بھجوا کر لوگوں نے ثابت کر دیا کہ سرکاری محکمے کس طرح ان سے ناانصافی کے مرتکب ہورہے ہیں، مجھے ایک سے زائد کسی محکمے کے ترجمان یا کسی ذمہ دار کی وضاحت اور مؤقف دینا یاد نہیں، جس کسی بات کی وضاحت، تردید اور جواب نہ آئے اخباری دنیا میں اسے سچ کا درجہ دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ متعلقہ محکمے کے پاس کہنے کو کچھ نہیں اور اس کے حکام نے سرتسلیم خم کرلیا چونکہ میں سرکاری امور کے بارے میں جانتی ہوں اس لئے میں نہیں سمجھتی کہ اخباری دنیا کا یہ موقف درست ہے، البتہ ان کو یکطرفہ فیصلے پر پہنچنے کی راہ بہرحال خاموشی اختیار کرنے والوں ہی نے فراہم کی ہوتی ہے۔ لوگوں کے مسائل کالم میں شائع ہونے پر حل نہیں ہو سکتے، کبھی کبھار اس کانوٹس بھی لیا جاتا ہوگا اور حل بھی ہوتے ہوں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ کم ہی قارئین اس سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ میرے حافظے میں دیر کے ایک نوجوان کا اپنے معذور بھائی کی دستگیر ی کے حوالے سے پاکستان بیت المال کے عملے سے شکایت کا نوٹس لئے جانے اور مسئلہ حل کرنے کی مثال موجود ہے۔ علاوہ ازیں بھی بعض قارئین نے آگاہ کیا ہوگا مگر بہت کم۔ سرکاری محکمے حکومت کو جوابدہ ہیں اور جو لوگ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو شکایات ارسال کرتے ہیں ان کا نوٹس لیا جاتا ہے اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے، وہاں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے سٹیزن پورٹل پر داخل دفتر کئی شکایات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔ اگر اس سطح پر سرکاری عمال ایسا کر سکتے ہیں تو باقی میں کیا ہوتا ہوگا، اس کا خود سے اندازہ لگالیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ان دنوں اس قسم کے حالات کا بچشم خود ملاحظہ کرنے کے جو جتن کر رہے ہیں یہ ان کی بہت اچھی کاوش ضرور ہے لیکن جب تک نظام کی اصلاح نہیں ہوگی سخت سے سخت ایکشن بھی ایک ہی دورے اور موقع کا ہوگا، پھر وہی ڈھاک کے تین پات، اس کا حل بیوروکریسی کی اصلاح اور حکمرانوں کا بیوروکریسی سے قانون کے مطابق کام لینے میں ہے۔ کسی بھی طرف سے تجاوز کی صورت میں من مانی اور اپنوں کو نوازنے اور دوسروں کو محروم رکھنے کا عمل شروع ہوگا۔ مثال کے طور پر سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال روکنے کے لاکھ جتن کئے گئے لیکن سرکاری گاڑیوں کا استعمال جب سب نہیں کریں گے اور یہ عمل اوپر سے شروع ہوگا تو نیچے والے بھی مجبوراً یہ عمل ترک کریں گے، بہرحال عوام الناس کے مسائل کے حل اور ان کی شکایات کا جو عمل سال دوسال یا زائد سے جاری ہے، قدرمشترک امر اجتماعی ہے اور جو مسئلہ لکی مروت اور بنوں کا ہے کم وبیش وہی مسائل مردان اور چارسدہ کے مضافات کا ہے بلکہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے مضافات کے بھی وہی عوامی مسائل ہیں جو صوبے کے کسی حصے کے عوام کا ہے۔ ٹو ٹی سڑکیں، تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی یا دور دراز واقع ہونے کی بناء پر طلبہ کو مشکلات آبنوشی علاج وغیرہ کے مسائل مشترک ہیں۔ قبائلی اضلاع میں اب بھی بند تعلیمی ادارے کھولنے کے مطالبات آتے ہیں، وزیرستان سے ایک لڑکی کا پیغام ملا ہے جس میں انہوں نے گرلز کالج کی عمارت کی موجودگی کے باوجود اس میں طالبات کو داخلہ نہ دینے اور بند رکھنے کی شکایت کی ہے، اس طرح قبائلی اضلاع میں بنداور گھوسٹ سکولوں اور گھوسٹ ملازمین کی شکایات عام ہیں اور یہ شکایات آج کی نہیں مسلسل اور زمانے سے اس کی نشاندہی ہوتی آئی ہے مگر پتھر ادھر کا ہی ادھر پڑا ہوا ہے۔ اسی طرح عوامی مسائل کی چٹانیں بھی جنبش نہیں کرتیں بلکہ چٹانوں سے پہاڑ بننے پر آجاتی ہیں اور حل نہیں ہوتیں۔ شکایات میں اضافہ اور حل ونمٹانے میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہنے کا امکان ہے جب تک کوئی غیر روایتی حکومت یا حکمران نہ آئے۔ پاکستان میں سالہاسال سے چلے آنے والے مسائل کے حل کی تو کسی بھی حکومت سے توقع عبث ہوگی لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر مسائل روز اول کی طرح پڑی رہتی ہیں۔ بعض مسائل کا عارضی حل نکالا بھی جاتا ہے مگر وقت گزرنے کیساتھ ایک مرتبہ پھر مسئلہ سنگین ہوتا ہے۔ جائزہ لینے پر معلوم ہوگا کہ کسی دور میںکوئی گلی یا سڑک بنی تھی، پختہ بھی کی گئی تھی لیکن پھر خراب ہوگئی، آبنوشی ونکاسی کی لائنیں اور نالیاں بنائی گئی تھیں پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، کسی شفاخانے میں ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر کی تقرری کردی گئی تھی، کسی سکول میں اساتذہ کی کمی پوری کردی گئی تھی، سکول کی عمارت بھی تعمیر ہوئی تھی مگر رفتہ رفتہ اساتذہ نہ رہے اور عمارت بھی کھنڈر بن گئی۔ اس لئے مسائل کا حل ہی کافی نہیں بلکہ ایسا عمل جو مسائل کے حل کے بعد مسائل کو دوبارہ سر اُٹھانے نہ دے وہ ضروری ہے اور کمی بھی اسی کی ہے ۔
قارئین 9750639 0337-پر اپنی شکایات اور مسائل میسج اور وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان