3 395

کتنے بے تاب نکلنے کو ہیں قاتل الفاظ

احمد ندیم قاسمی نے کبھی ایک شعر کہا تھا جو ہمارے معاشرے کے عمومی رویوں پر گہرا طنز اور عکاس تھا، اگرچہ اسی نوعیت کے اشعار پشتو ادب میں بھی مل جاتے ہیں اور ممکن ہے کہ دوسری زبانوں میں بھی موجود ہوں تاہم ان تک ہماری رسائی نہیں ہے، بہرحال قاسمی صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کیساتھ
یہ شعر یوں یاد آیا کہ آج کے اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر لگی دیکھی جس کی سرخی جس کو انگریزی میں ”اپنی وضاحت آپ کرتی” کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے یہ تھی کہ ”عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا 109واں یوم پیدائش آج منایا جائے گا”۔ اب محولہ بالا شعر کی روشنی میں اگر اس خبر کو دیکھا جائے تو بڑی حد تک یہ شعر صورتحال پر منطبق ہوتا ہے تاہم جس پشتو شعر کا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ صورتحال پر اُردو شعر کے مقابلے میں زیادہ جامع اور وقیع نظر آتا ہے۔ اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جب میں زندہ تھا تو تم پتھر مارا کرتے تھے، اب جبکہ میں دنیا سے رخصت ہوچکا ہوں تو میری قبر پر یادوں کے دئیے مت جلاؤ اور اسی تناظر میں جب ہم منٹو کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو بے چارے پر ترس آتا ہے۔ وہ کتنا عظیم افسانہ نگار تھا، اس کا فیصلہ نہ صرف اس کی موت کے بعد کے چند برسوں میں ہو ہی گیا تھا جبکہ ابھی اس کی عظمت کے گن آنے والے زمانوں میں گائے جاتے رہیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ منٹو کو عالمی سطح کے گنے چنے افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم ان کی زندگی میں ان کا جس طرح استحصال کیا گیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان کے ذاتی کردار سے قطع نظر جو بعض انتہا پسند اور خود ساختہ ٹھیکیداران سماجیات اور معاشرتی اقدار کے نزدیک حددرجہ قابل اعتراض تھا، ان کے فن کی عظمت اپنی جگہ قائم تھی، دراصل وہ اپنے قلم سے جس طرح سماجی کجیوں پر ایک خنجر آبدار کی طرح چرکے لگا کر بقول ساحر لدھیانوی ”ثناخوان تقدیس مشرق” کو بیچ چوراہے کے بے لباس کرتے تھے اور برہنہ سچائی لکھ کر معاشرے کو انسانی اقدار کے کٹہرے میں لاکھڑا کر دیتے تھے، ان خودساختہ سماجی ٹھیکیداروں سے وہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا تھا اور وہ منٹو پر فحش نگاری کے الزام لگا کر نہ صرف اپنے دل کا غبار نکالتے تھے بلکہ ان کی بعض تحریروں کو ”رائج معاشرتی اقدار” کیخلاف بغاوت قرار دیکر ان پر مقدمات بھی قائم کئے گئے، منٹو اپنے نوک قلم سے معاشرتی اقدار پر حملہ آور ہو کر جس بے باکی سے اپنے الفاظ کو ”قاتل” بنا کر معاشرتی اقدار کے دوغلے پن کو بے نقاب کرتے تھے اس میں وہ کوئی لگی لپٹی رکھنے کا کوئی تکلف نہیں کرتے تھے اور اگر وہ اپنے دانش کے بے رحم اور بے لگام اشہب کو روکنے کی غلطی کرتے تو یقیناً آج ان کا تذکرہ (بعد ازمرگ) عظمت کے ان میناروں کے سنگ کبھی نہ کیا جاتا جن کی تحریروں نے انہیں بام عروج پر پہنچا رکھا ہے۔ ایسی صورت میں آج کے نمائندہ شاعر نشاط سرحدی کو منٹو کے حوالے سے یہ کہنا پڑتا کہ
کتنے بے تاب نکلنے کو ہیں قاتل الفاظ
منہ کے زندان میں پابند سلاسل الفاظ
منٹو نے مگر منہ کے زندان کے اندر بقول فیض احمد فیض ہر ایک حلقہ زنجیر میں زبان رکھتے ہوئے اسے قلم کے نشتر میں ڈھالا اور پھر معاشرتی اقدار کے نام نہاد ٹھیکیداروں اور ثناخوان تقدیس مشرق کے مکروہ چہروں سے نقاب نوچ لئے تھے، آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو جنہوں نے منٹو پر الزامات لگا کر ان کی زندگی تلخ کردی تھی آج ان کا ذکر بھی کوئی نہیں کرتا اور بقول احمد فراز
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور کے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
مگر وقت نے منٹو کی عظمت کا اعتراف کر لیا ہے اور ان کے یوم پیدائش کے حوالے سے میڈیا خبروں سے بھرا ہوا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کی زندگی میں تو تلخیاں بھرنے والوں کی جہاں کمی نہیں تھی، ان کی موت کے بعد ان کے اہل خاندان کیساتھ پاکستان کے ناشروں نے بھی کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا اور ان کی کتابوں کی رائیلٹی کے حوالے سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی جبکہ ناشرین نے منٹو کے قارئین کیساتھ بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا یہ الگ بات ہے کہ یہ سلوک صرف منٹو کیساتھ روا نہیں رکھا گیا ان پاکستانی ناشرین کا ہر شاعر، ادیب (بہ استثنائے چند) کیساتھ یہی رویہ رہتا ہے اور ان کی کتابیں ”جملہ حقوق بہ حق ناشر” کی شرط کیساتھ شائع کر کے صرف سو پچاس کتابوں پر ہی انہیں ٹرخا دیا جاتا ہے بلکہ بعض ناشر تو کتاب چھاپنے کے اخراجات بھی تخلیق کار سے ہی وصول کر لیتا ہے، حالانکہ دنیا بھر میں کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت لکھاریوں کو رائیلٹی میں اتنی رقم ملتی ہے کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی نہال ہوجاتی ہیں، البتہ منٹو جس دور میں زندہ تھے ان کے ایک افسانے پر بعض روایات کے مطابق پچاس روپے رسالے والے ادا کر دیتے تھے اور ناشرین بھی کتاب کی کچھ کچھ رائیلٹی دے دیتے تھے جس سے ان کی گزربسر انتہائی مشکل سے ہوتی تھی مگر اب تو شاید ہی کوئی ان کے اہل خانہ (بچوں) کو کچھ ادا کرتے ہوں۔ توکیا صرف ان کی یاد منانا ہی ”رائیلٹی” رہ گئی ہے؟۔
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مرگیا
راشن تو بٹ رہا تھا وہ فوٹو سے ڈرگیا

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ