p613 336

فلسطینیوں کا بہتا لہو

اسرائیل اور حماس کے درمیان محاذ آرائی نے شدت اختیار کرلی، اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ میں13منزلہ بلند رہائشی عمارت تباہ کردی جبکہ حماس نے اسرائیل کی جانب سیکڑوں راکٹس برسائے۔ دوسری جانب رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم5اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے جبکہ10افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکام نے غزہ میں حماس اور عسکریت پسندوں کیخلاف فضائی حملوں کی تعداد اور طاقت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب مصر کے حکام نے کہا کہ وہ جنگ بندی کیلئے بات چیت کی کوشش کررہے ہیں لیکن تشدد کا دائرہ رفتار پکڑ رہا ہے۔ اپنے شہریوں کی ہلاکت سے پہلے ہی اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کی سرحد پر مزید دستے بھجوا رہے ہیں جبکہ وزیر دفاع نے5ہزار ریزور فوجیوں کو متحرک کرنے کا حکم دیدیا تھا۔ راکٹس اور فضائی حملوں کا یہ سلسلہ مسجد الاقصی کمپاؤنڈ میں اسرائیلی فورسز کے دھاوا بولنے کے باعث پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کے بعد شروع ہوا۔ مشرقی وسطی کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر ٹور وینس لینڈ نے فوری طور پر تشدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ تمام واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کہیں یہ مکمل جنگ کی صورت نہ اختیار کر لے۔ اقوام متحدہ نے مغربی کنارہ اور غزہ میں تازہ تشدد کی لہر پر تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔ جنیوا میں ادارے کے ایک ترجمان روپرٹ کول ولے کا کہنا تھا ”ہم تشدد، نسلی تقسیم اور اشتعال انگیزی کے مقصد کیلئے ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔” اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ کے شدت پسندوں کو اس کیلئے ایک بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور فوجی آپریشن میں ابھی وقت لگے گا۔ وزیر دفاع بینی گینٹز کیساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا، ”ہم بہت ہی وزنی مہم کی ابھی بلندی پر ہیں” وزیر دفاع بینی گینٹز کا کہنا تھا اسرائیل کے پاس ابھی غزہ میں،بہت سارے عظیم اہداف ہیں جہاں وہ حملہ کر سکتا ہے۔ یہ تو بس ایک آغاز ہے۔ ادھر حماس نے مزید فضائی حملوں کا جواب دینے کا عہد کیا ہے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہانی نے منگل کے روز کہا تھا کہ حماس نے یروشلم کا دفاع کیا ہے۔بیت المقدس کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا ایک ورچوئل اجلاس حالیہ دنوں منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کی جانب سے ایک مشترکہ مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کیلئے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔57مسلم ممالک کی نمائندگی کرنے والی یہ عالم اسلام کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے مستقل مندوبین اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں بھی تعینات ہیں مگر مسلم دنیا کی داخلی صورتحال دوریوں اور رنجشوں کی وجہ سے مسلم دنیا کی اس مشترکہ آواز کو وہ وزن حاصل نہیں ہو سکا جو ایک ارب اسی کروڑ آبادی کی حامل مسلم دنیا کو اصولی طور پر حاصل ہونا چاہیے۔رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوں میں اسرائیل کا القدس الشریف کی بے حرمتی اور فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ڈھانا پوری اُمت مسلمہ کیلئے مقام افسوس ہے اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوں میں پیغمبر اسلام کے زمانے میں نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم خاتم النبیین اور ان کے جانثار صحابہ نے دیں، اسلام کا جو اہم فریضہ انجام دینے میں ذرا بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے تھے مابعد خلفائے راشدین بھی انہی کے نقش قدم پر چلے اسے تقریباً پوری اُمت مسلمہ نے بھلا دیا ہے۔ آج مسلمانوں میں جہاد کا نہ تو جذبہ نظر آتا ہے اور نہ ہی وہ جہاد کیلئے تیار ہیں۔ علمائے کرام بھی اس اہم فریضے کو بیاں کرنے میں کوتاہی کے مرتکب واقع ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے انحطاط اور پستی کی وجہ ترک جہاد ہے جب تک مسلمان جہاد کا فریضہ ادا کرتے رہے مسلمان غالب رہے اور جب یہ فریضہ مسلمانوں کو مشکل لگنے لگا تو مسلمان ذلت وپستی کا شکار ہوئے اور اب تو یہ سلسلہ انتہا کو پہنچا ہے جس کا نتیجہ پوری اُمت مسلمہ کے سامنے ہے۔ کروڑوں مسلمان اور وسائل سے مالا مال اسلامی ممالک مل کر ایک ناجائز ریاست کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ مسلم ممالک اگر حماس جہادی تنظیموں اور فلسطینی مسلمانوں کی دستگیری کا فریضہ اُٹھائیں اور وسائل ہی فراہم کریں تو اسرائیل کا نشان ہی مٹ جائے گا لیکن مسلم ممالک کی تنظیم بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرح روایتی مذمت اور اقوام متحدہ کی طرح تشویش ہی کا اظہار کرتی ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے کہ وہ اسرائیلیوں کی مشق ستم کا نشانہ بنیں۔ فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے چھٹکارہ دلانے کا تقاضا ہے کہ او آئی سی کی قیادت اور رکن ممالک سے کام لیں اور اسرائیل کیخلاف ٹھوس کارروائی کیلئے کمر کس لیں جب تک مسلم ممالک اس سطح کے ردعمل کا اظہار نہیں کریں گے۔ گفتند ونشستند و برخواستند سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  صحت کارڈکے شفاف استعمال بارے اچھی کوشش