logo 78

اسرائیل کی بربریت اور اقوم عالم کا کردار

گزشتہ چند روز سے اسرائیلی افواج نے فلسطینی مسلمانوں پر جس طرح عرصہ حیات ایک بار پھر تنگ کرتے ہوئے غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں تادم تحریر شہدا کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد اور زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔ متعدد عمارتیں زمین بوس ہو کر مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں،اس پر امریکہ اور دوسرے بڑے اہم ممالک کی خاموشی قابل مذمت ہی کے زمرے میں شامل ہوتی ہے، اگرچہ او آئی سی اورسلامتی کونسل کے اجلاس بھی طلب کر لئے گئے ہیں تاہم دنیا جانتی ہے کہ ان اجلاسوں کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ او آئی سی کی حیثیت تو ”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے” سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ان مسلم ممالک میں وہ دم خم نہیں ہے جو صیہونی اور نصرانی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں کیونکہ ان دونوں طاغوتی قوتوں نے مسلمانوں کو اپنی سازشوں کے ذریعے ایسے جکڑ رکھا ہے اور ان کے گرد اپنے سازشی جال بچھا کر بے بس کر رکھا ہے کہ یہ مسلمان ملک ذرہ سی سر تابی کریں تو ان کے تختے اُلٹا دیئے جاتے ہیں۔اس لئے اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور بربریت کاسامنا گنتی کے چند ممالک ہی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تازہ ترین صورتحال اس لئے درپیش آرہی ہے کہ فلسطین کے بعض علاقوں میں یہودیوں نے زور زبردستی مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ جمانا شروع کر کے ان کا سامان باہر پھینک دیا ہے،جس سے صورتحال میں کشیدگی پیدا ہوئی اور پھر اسرائیلی فوجوں نے یہودیوں کاساتھ دیتے ہوئے مسلمانوں کیخلاف کریک ڈائون کیا، جس کا ردعمل آنا فطری بات تھی،اگرچہ فلسطینی مجاہدین نے اس پر راکٹ حملوں سے تل ابیب کو نشانہ بنایا جس سے جنگ کا دائرہ وسیع ہوگیا،مگر اقوام عالم کی پراسرار خاموشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اب وہاں صورتحال انتہائی مخدوش ہوچکی ہے۔ صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اعلان کیا ہے جبکہ ملی یکجہتی کونسل نے ملک گیر احتجاج کر کے دنیا کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ یک زبان ہو کر اسرائیلی جارحیت کیخلاف فلسطین کے مظلوم عوام کا عملی طور پر ساتھ دیں،اگر انہیں فوجی تعاون فراہم نہیں کیا جاسکتا تو کم ازکم امتحان کی اس گھڑی میں ان کی مالی اوراخلاقی مدد کر کے دست تعاون تو درازکیا جاسکتا ہے۔
لاک ڈائون کا خاتمہ
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے اتوار16مئی سے (جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں) پبلک ٹرانسپورٹ بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کاروبار کی اجازت دیدی ہے۔ سرکاری دفاتر مقررہ اوقات کے مطابق کھولنے کا فیصلہ اور ٹرین آپریشن 70فیصد مسافروں کیساتھ جاری رکھنے کا بھی اعلان کردیا ہے، تاہم مارکیٹیں اور بازار رات8بجے تک کھلے رکھنے کے فیصلے پر آج بروز پیر17مئی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔ البتہ انڈور اور آئوٹ ڈور تقریبات پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔ این سی اوسی صورتحال کا19مئی کو دوبارہ جائزہ لیکر نئی حکمت عملی طے کرے گی،ادھر تاجروں نے ہفتے میں دو دن لاک ڈائون کے خاتمے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عید سے قبل ایک ہفتے کے لاک ڈائون نے تاجروں کی کمر توڑ دی ہے اور مزید لاک ڈائون برداشت کرنے کی تاب نہ رکھتے ہوئے ہفتے میں دو دن لاک ڈائون کر کے ان کی داد رسی کی جائے۔ دوسری جانب تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا دورانیہ23مئی تک بڑھا دیا گیا ہے جس سے تعلیمی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں اور نہ صرف تعلیمی اداروں کے انتظامیہ بلکہ والدین کو بھی اس بات کی فکر لاحق ہے کہ ان اداروں کی مسلسل بندش سے نئی نسل کا مستقبل کیا ہوگا۔ تعلیم سے محرومی کی وجہ سے کیا آئندہ جاہل نسل پروان چڑھے گی؟ اگرچہ کورونا کی شدت میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے اسی وجہ سے لاک ڈائون میں نرمی کی جارہی ہے تاہم پھر بھی عوام کو احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہئے اور ایسی سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہئے جن سے خدانخواستہ حالات پھر تشویشناک صورت اختیار کرلیں،عوام کا تعاون ہی حالات کو نارمل کرنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار