2 85

کلبھوشن یادو کی یاد

سابق ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے سابق وزیر اعظم پر الزام عائد کر کے بھولی بسری یادیں تازہ کرا دیں کہ نوازشریف کے دور میں دفترخارجہ کو کلبھوشن کا ذکر کرنے کی ممانعت تھی اور شریف خاندان بھارت کا حامی تھا۔ ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے تسنیم اسلم نے نواز شریف پر بھارت کیساتھ کاروباری مفادات ہونے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی ہدایت تھی کہ بھارت کیخلاف کوئی بات نہیں کرنی، نواز شریف مودی کی تقریب حلف برداری میں دلی گئے تو حریت رہنماؤں سے ملاقات نہیں کی۔ تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ بھارت نواز پالیسی سے نواز شریف کو شائد ذاتی حیثیت میں فائدہ ہوا ہو لیکن پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مگر محترمہ نے یہ نہیں بتایا کہ موجودہ دور میں پاکستان کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے، دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک بیان میں انٹرویو کی تائید میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ تسنیم اسلم نے اس بات کی توثیق کی ہے جو ہم پہلے ہی جانتے تھے، یہ ان کی جرأت کا ثبوت ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت دفتر خارجہ نے اس پالیسی کی پیروی کی؟ خیال رہے کہ سال2016 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں غاصبانہ اقدامات پر عالمی برادری کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب کیا۔ دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ ان کی حکومت تنازع کشمیر پر کوئی لچک نہیں دکھائے گی اور کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے تسنیم اسلم کے انٹرویو پر ردعمل میں کہا کہ میں نے وزیردفاع اور خارجہ کی حیثیت سے بھارت کے متعلق سخت رویہ اپنایا، ریکارڈ کی بات ہے مجھے تو کسی نے ہدایت نہیں دی کہ ایسا نہ کرو یا روکا، محترمہ کے انٹرویو میں سیاسی زاویہ ہوسکتا ہے حقائق بالکل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک موجودہ وزیراعظم سے کلبھوشن کا نام نہیں سنا، کشمیر، دہلی اور بھارت کے طول وعرض میں مسلمانوں پر قیامتیں ٹوٹ گئیں، عمران خان اسلامی کانفرنس اجلاس نہ بلاسکے، معذرت خواہ روئیے سے قوم کی تضحیک ہوتی رہی۔
پاکستانی دفترخارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم نے اتوار کی رات ایک انٹرویو کے دوران یہ دعویٰ کیا ہے کہ شریف خاندان بھارت نواز ہے اور یہ بھی کہ نواز شریف کے دل میں بھارت کیلئے نرم گوشہ ہونے کی وجہ ان کے کاروباری مفادات تھے۔ ایسے الزامات ماضی میں بھی لگتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈر بھی اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری بھی گزشتہ دورحکومت میں دعویٰ کرتے تھے کہ نواز شریف کی شوگر ملوں میں350بھارتی کام کرتے ہیں، مگر انہوں نے پی ٹی آئی کے صالح رہنما جہانگیر ترین کی ملوں میں کام کرنے والے بھارتیوں کو نہیں گنا۔ خود وزیراعظم عمران خان جلسوں میں نواز شریف کو مودی کا یار کہتے تھے اور حافظ سعید کی سرپرستی میں ایک ملی مسلم لیگ بھی وجود میں آئی تھی جس کا نعرہ ہی ”مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے” تھا۔ ان الزامات کی بنیاد پر کچھ سوالات ہیں جن کا اُٹھایا جانا ازحد ضروری ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ تسنیم اسلم جو نواز شریف کے دور میں ہی دفترخارجہ کی سرکاری ترجمان لگائی گئی تھیں، یہ احکامات کیسے مانتی رہیں۔ خارجہ پالیسی کے انتہائی اہم اور حساس موضوع پر کوئی بھی حکمت عملی دفترخارجہ کی ترجمان تک واضح احکامات کی صورت میں آنی چاہئے۔ کیا تسنیم اسلم کو کوئی تحریری حکم موصول ہوا تھا؟ اگر ہوا تھا تو انہوں نے ملکی مفاد اور ذاتی نظریات کو پیشہ ورانہ مجبوریوں کے نام پر کیوں تیاگ دیا؟ کیا انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا؟ جیسا کہ بھارت میں پاکستان کے سفیر عبدالباسط نے تسنیم اسلم جو ان سے جو نیئر تھیں جب ان کو سیکرٹری خارجہ تعینات کیا گیا تو وہ مستعفی ہو گئے تھے کیا انہوں نے حکومت کی بھارت نوازی پر اپنے تحفظات کا تحریری صورت میں اظہار کیا؟ اگر کیا تو اس کا کوئی ثبوت انہیں ضرور سامنے لانا چاہئے اور ساتھ ہی وہ تحریری حکمنامہ بھی جس کے تحت انہوں نے کئی سال تک بھارت اور کلبھوشن کیخلاف لب کشائی نہ کی۔ یہ ان کی پیشہ ورانہ قابلیتوں پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ دوسرا سوال ان کے الزامات سے متعلق ہے، یہ انتہائی سنگین نوعیت کا الزام ہے جس کی تحقیقات تو ہونی ہی چاہئیں، یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ نواز شریف کے وہ کاروباری مفادات جن کی بازگشت گزشتہ کئی سالوں سے میڈیا میں سنائی دے رہی ہے، وہ سامنے کیوں نہیں لائے جا رہے؟ گزشتہ دو سالوں میں سیاسی رہنماؤں کو پیشیوں کا جھانسہ دیکر جعلسازوں کے سے انداز میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ زیرحراست سابق وزیراعظم کو نیب نے جیل سے نکال کر اپنی حراست میں لیا ہے، تو پھر ان ”کاروباری مفادات” پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جیسا کہ انسانی حقوق کی وزیر شریں مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پہلے سے جانتی ہیں نواز شریف کے کاروباری بھارتی مفادات کو تو انہوں نے نیب کو یہ کیس کیوں نہیں دیا جبکہ ان کی پارٹی کے سربراہ کا نعرہ ہی یہ ہے کہ نہیں چھوڑوں گا، گھسیٹوں گا، رلاؤں گا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کشمیرکاز کو جتنا نقصان کارگل مہم جوئی اور گزشتہ برس بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے سے پہنچا ہے، کسی بھی حکومت کے دور میں نہیں پہنچا۔یہ واحد دورحکومت ہے کہ جس میں وقت کے وزیرخارجہ نے میڈیا کو کورا جواب دیتے ہوئے کہہ دیا کہ دنیا ہماری بات ہی سننے کو تیار نہیں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام