5 400

دعویٰ عمل سے خالی کیوں؟

اُحد کا میدان تھا، عین اس وقت جبکہ مختصر سا اسلامی لشکر تاریخ کے اوراق میں بدر کے بعد ایک اور فتح ثبت کرنے جا رہا تھا، جبل رماہ پر نبی اکرمۖ کی جانب سے تعینات تیر اندازوں کی خوفناک غلطی کی بدولت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اسلامی لشکر کفار کے نرغے میں آکر چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا تھا۔ رسول اکرمۖ کے اردگرد خونریز معرکہ آرائی جاری تھی۔ کیونکہ کفار چاہتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اللہۖ کی جان لے لیں۔ مشرکین کے ان حملوں سے نبی مہربانۖ کو بچانے کیلئے محبت، جانثاری اور شجاعت کے ایسے مظاہرے ہوئے جو تاریخ میں امر ہو گئے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہۖ اس روز سات انصار اور دو قریشی صحابہ کیساتھ تھے۔ جب کفار کے حملہ آور آپۖ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو آپۖ نے فرمایا: کون ہے جو انہیں ہم سے دفع کرے وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا نبیۖ کا یہ کہنا تھا کہ باری باری تمام انصاری صحابہ نے اپنی جانیں آپۖ پر نذر کر دیں۔ اب دو قریشی صحابہ طلحہ بن عبید اللہ اور سعد بن ابی وقاص رہ گئے۔ سیدنا طلحہ آگے بڑھے اور گیارہ آدمیوں کے برابر لڑے۔ یہاں تک کہ ہاتھ پر تلوار کی ضرب پڑی اور انگلیاں کٹ گئیں۔ وہ کہتے جاتے میرے ماں باپ آپ پر قربان۔۔۔ آپ کو قوم کا کوئی تیر نہ لگے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے ہے۔ انہیں احد کے روز یا زخم آئے۔ ترمذی کی روایت کے مطابق نبی اکرمۖ نے اس روز فرمایا جو شخص روئے زمین پر کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے۔ سیدنا ابو دجانہ نبی اکرمۖ کے آگے کھڑے ہو گئے اور اپنی پیٹھ کو آپ کے لیے ڈھال بنا لیا۔ ان پر تیر برس رہے تھے مگر وہ اپنی جگہ سے ہلتے نہ تھے۔ سیدنا ابو سعید خذری کے والد مالک بن سنان نے رسول اکرمۖ کے چہرہ مبارک سے خون چوس کر صاف کیا۔ آپۖ نے فرمایا اسے تھوک دو انہوں نے کہا واللہ ہرگز نہیں تھوکوں گا۔ اس کے بعد لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ رسولۖ نے فرمایا جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اسے دیکھے۔ سعد بن ابی وقاص بھی ماہر تیر انداز تھے۔ رسولۖ نے اپنے ترکش کے سارے تیر ان کیلئے بکھیر دیے اور فرمایا کہ: چلاو تم پر میرے ماں باپ قربان واللہ کیا خوش نصیبی ہے! رسول اکرمۖ نے ان کے سوا کسی کیلئے بھی ماں باپ کے فدا ہونے کی بات نہیں کی۔(بحوالہ الرحیق المختوم) یہ وہ مقدس و محترم نفوس تھے جنہوں نے عشق رسولۖ کو اپنی متاع زیست بنایا اور جب فداک ابی و امی کہا تو کوئی طاقت، کوئی شہنشاہیت، باطل کی کوئی دھمکی اور شاطروں کی کوئی چال ان کو پھسلا نہ سکی۔ انہوں نے نبی کریمۖ کی محبت میں اپنی جانیں نچھاور کیں۔ اور ہم۔ ان مقدس ہستیوں کی خاک پا بھی نہیں۔ مگر آقاۖ کے امتی ہیں۔ آقائے مہربانۖ سے محبت ہماری زیست کا سرمایہ ہے۔ انۖ کے نام مبارک کو چومتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ انۖ کا ذکر ہو تو درود و سلام لبوں پر سجا لیتے ہیں۔ کچھ عقیدت مند انۖ کا نام سنتے ہی اظہار عقیدت میں سینے پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ ایمان افروز معرکوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔ اور ایک حسرت دل میں اترتی ہے کہ کاش ہم بھی ان میں شامل ہو جائیں جو عشق رسول کے دعوے میں پورے اترے۔ فداک ابی و امی کے نام پر زبانی جمع خرچ نہیں کی بلکہ واقعی جان نچھاور کر کے دکھائی۔ ظالم آج بھی پورے شر کیساتھ برسر پیکار ہیں۔ ناپاک جسارتیں جاری و ساری ہیں۔ ہر کچھ عرصے کے بعد اُمت محمدیہ کے جذبات کو للکارا جاتا ہے اور اس کے دعوی عشق کو ٹٹولا جاتا ہے۔ تمام تر شرارتوں کا ہدف وہ نبی مہربانۖ ہیں جو شریروں کیلئے شفیق اور ظالموں کیلئے دعائے خیر تھے۔ جنہوں نے کفار حق کی جانب سے دی گئیں تمام اذیتیں تکلیفیں اس وقت بھلا دیں جب انہوں نے مکہ فتح کیا۔ تاریخ کی انوکھی فتح جس میں نہ لاشوں کے ڈھیر لگتے ہیں نہ خون کے دریا بہائے جاتے ہیں۔ بھوت بستیاں بسائی جاتی ہیں نہ قیدی بنائے جاتے ہیں۔ نبی مہربانۖ اپنی جان کے دشمنوں سے فرماتے ہیں جائو آج تم پر کوئی محاسبہ نہیں کیا کفار حق اپنے غلبے کی تمام تر تاریخ کھنگال کر بھی کسی ایسی فتح کی مثال پیش کر سکتے ہیں جیسی فتح نبی مہربانۖ کے ہاتھوں ہوئی؟ ایک جانب کفار کے ناپاک عزائم ہیں دوسری جانب عشق رسول کے دعویدار مگر زبانی جمع خرچ کرنے والے۔ دنیا کی بڑی عسکری طاقتوں میں سے ایک، اسلحہ و ساز وسامان سے لیس، مادی وسائل سے مالا مال۔۔۔ مگر جب آقاۖ کیخلاف ناپاک جسارتیں کرنے والوں کو سبق سکھانے کا مرحلہ درپیش آتا ہے تو کبھی مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں کبھی پوری دنیا سے دشمنی مول لینے کا خوف۔ کبھی اپنے کمتر ہونے کا احساس سر اُٹھانے لگتا ہے تو کبھی رزق کے دروازے بند ہونے کا خطرہ۔ نہ صرف یہ خود خوفزدہ ہیں بلکہ مصلحت کا لبادہ اس قوم کو بھی اڑھانے کی کوشش میں لگے پڑے ہیں جو آقاۖ کی محبت سے سرشار ہیں اور عشق رسولۖ کے دعوے کا عملی ثبوت مانگتی ہے۔ باطل کی شر انگیزیوں پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اے مسلم حکمرانو!اے دعوی عشق کرنے والو! اب تم ہی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یورپی یونین اور باطل قوتوں سے وابستگی عزیز ہے یا عشق رسولۖ کے مظاہرے کا عملی قدم؟۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت