2 86

کرونا وائرس، مزید اقدامات کی ضرورت

اگرچہ وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب میں کرونا وائرس کے مزید پھیلنے کے حوالے سے جملے کو خاص طور پر تنقید کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم نے کوئی ایسی خلاف واقعہ بات نہیں کی اور نہ ہی یہ ایسی بات ہے کہ اس کا لوگوں کو علم نہ تھا یا یہ کوئی ایسا غیرمتوقع انکشاف نہیں تھا جس سے کھلبلی مچ جاتی، یہ ایک حقیقت ہے کہ کرونا وائرس پھیل رہا ہے اور خدا جانے کب تک اور کیسے اس کی روک تھام ہوگی فی الوقت تو اموات اور مرض میں مبتلا ہونے کی شرح بہت زیادہ نہیں لیکن اس کے پھیلائو میں اضافہ اسلئے بھی فطری امر ہے کہ ہم شہری بھی حفاظتی واحتیاطی تدابیر سے اولاً واقف نہیں اور اگر تھوڑی بہت معلومات رکھتے ہیں تو اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، جب لوگ خود ہی اپنی جان کے دشمن بن جائیں تو حکومت سے کیا توقع رکھیں جو ہر معاملے میں تاخیر اور ناکامی کی شہرت کی حامل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم نے کم ازکم قوم سے سچ تو بولا ہے جس پر تنقید کی بجائے اسے سراہا جانا چاہئے اور شہریوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے۔ کرونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام اور علاج کیلئے حکومتی اقدامات کی حقیقت ہیچ ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ تفتان پاکستان کیلئے ووہان ثابت ہوسکتا ہے، تفتان سرحد سے زائرین کی واپسی کے وقت جس عدم احتیاط اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا اس کااگر اعتراف کر کے کرونا وائرس کے پھیلائو کے خدشات کے پیش نظر احتیاط برتنے کی اپیل کی جاتی تو بہتر ہوتا، معلوم نہیں وزیراعظم نے بلوچستان حکومت کے کس کارنامے کی تعریف کی ہے جس کے وزیراعلیٰ صوبوں سے اپنے شہریوں کو لیجانے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کرونا وائرس کا شکار زائرین کی منتقلی میں جس سنگین اور بد ترین غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اس کی رپورٹ حکومت کو ہو چکی ہے جس طرح کے اقدامات اور غفلت کے مظاہرسامنے آرہے ہیں اس کے تناظر میں تو اب تک وبا میں شدت آجانی چاہئے تھی شاید قدرت کو منظور نہیں یا پھر ا س وائرس کیخلاف لوگوں کی قوت مدافعت خاص طور پر بہتر ہے یا پھر مریضوں کی رپورٹ ہی نہیں ہوتی۔ عجیب امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور لاہور میں ایک ایک مریض کی موت کو پہلے کرونا وائرس کے سبب بتایا گیا بعد میں اس کی تردید آئی۔ حکومت نے اب تک اس امر کے بھی اعداد وشمار جاری نہیں کئے کہ کتنے مزید زائرین نے تفتان سرحد سے آنا ہے یا پھر حکومت نے ایران جانے پر پابندی لگا کر اس پر عملدرآمد یقینی بنایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں احتیاط سے کام لیا جاتا تو اتنے افراد بھی اس مرض میں مبتلا نہ ہوتے اور صورتحال مزید بہتر ہوتی، تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں معمول سے ہٹ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جن اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے’ ان پر کس قدر عمل درآمد ہو پائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر اندازہ لگایا جائے تو سب جانتے ہیں کہ ہماری کارکردگی کیسی ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہمیں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ کرونا مرض کو پھیلنے اور وبا کی شکل اختیار کرنے سے روکنے کیلئے اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ صائب ہیں اور ان کے مثبت اثرات و نتائج سامنے آنے کا پورا یقین بھی ہے۔ جو آفت ہم سمیت پوری دنیا پر نازل ہو چکی ہے’ اس پر ایک دوسرے کو مطعون کرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کمر کسنی چاہیے چنانچہ ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی سب حکومتیں مل کرآگے بڑھیں اور مشترکہ طور پر وہ تمام اقدامات کریں’ جو وقت کا تقاضا ہیں۔ عوام اگر حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کی پوری طرح پاسداری کریں تو سب سے زیادہ ممد ومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹیاں کرونا وائرس کے حوالے سے کوآرڈی نیشن کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی جبکہ اقتصادی کمیٹی ملک کے معاشی معاملات پر گہری نظر رکھے گی تاکہ حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچایا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں