5 41

تارکین وطن میں پاکستانی سیاست کی بنیاد پر تقسیم

پاکستانیوں کی بیرون ملک خصوصاً مشرق وسطی میں کام کی تلاش میں ترک وطنی کا سلسلہ 70کی دہائی میں بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ اس سے قبل بھی پاکستانی دیگر ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکہ میں تعلیم یا معاش کی تلاش میں نکلتے تھے لیکن اس وقت یہ تعداد بہت کم تھی۔ مشرق وسطی کے 70کی دہائی کے معاشی انقلاب میں وہاں پر ایک بہت بڑے تعمیری پروگرام کے آغاز اور ہنرمندوں کی ضرورت اور اس وقت کی پاکستانی حکومت کی پہل سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملا جس سے پاکستان میں معاشی بہتری کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پچھلے 20سالوں میں پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں روایتی ممالک کے علاوہ جنوبی مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا میں بھی روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کی ہے۔ گو ابھی تک تارکین وطن کی صحیح تعداد کا اندازہ تو نہیں ہے لیکن دستیاب معلومات کے مطابق تقریباً80 اور 90لاکھ کے درمیان پاکستانی بیرون ملک قیام پذیر ہیں۔ یورپ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا میں بڑی تعداد میں پاکستانی وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ اعداد بتاتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کا چار فیصد سے بھی زیادہ حصہ بیرون ملک قیام پذیر ہے جو شاید دنیا بھر میں تارکین وطن کی بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔ تقریباً دو کروڑ پانچ لاکھ بھارتی بھی بیرون ملک قیام پذیر ہیں لیکن یہ بھارتی آبادی کا صرف دو فیصد کے قریب بنتی ہے۔پاکستان کی معیشت کی ترقی میں تارکین وطن کی ترسیلات زر نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج تک ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تارکین وطن کی ترسیلات پر کافی انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی تارکین وطن نے پاکستان کی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ملک میں نمایاں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ مثلاً برطانیہ کے سر انور پرویز نے بڑی سرمایہ کاری کرتے ہوئے یونائیٹڈ بینک کو خریدا اور ایک بہت بڑی سیمنٹ فیکٹری بھی قائم کی۔ اسی طرح بہت سے پاکستانیوں نے اپنے میزبان ممالک کی ترقی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے کاروبار کے ذریعے ان ممالک میں ہزاروں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ بدقسمتی سے جس طرح پاکستان میں عوام حال ہی میں سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوئے ہیں اس سے ان میں آہستہ آہستہ سیاسی اور سماجی رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی طرح تارکین وطن کی ایک بہت بڑی اکثریت پاکستان میں جاری منفی سیاست کی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہے اور ان میں سیاسی اختلافات میں شدت آئی ہے۔ ستر کی دہائی تک تارکین وطن ہم آہنگی کی تصویر تھے اور آپ کو ان میں بہت کم اختلافات کی خبریں ملتی تھیں لیکن 77کی فوجی بغاوت کے بعد تارکین وطن کے سیاسی خیالات میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی۔ اسی وقت بیرون ملک پیپلز پارٹی کے دفاتر قائم ہوئے اور ان کے عہدیداران نے کمیونٹی میں پاکستان کے سیاسی معاملات پر سنجیدہ بحث کا آغاز کیا۔ بہت سارے سیاسی رہنما جو اس وقت پاکستان میں سیاسی گھٹن اور پابندیوں کے باعث اپنا مدعا بیان نہ کر پاتے تھے ان کیلئے یہ پلیٹ فارم بہت مفید ثابت ہوا۔ حکومت وقت نے اس بڑھتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کیلئے انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کو بیرون ملک متحد کرنا شروع کیا اور انہیں مالی ودیگر امداد کے ذریعے اپنی حمایت پر مائل کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ یہ تقسیم نوے کی دہائی میں اور واضح ہوئی اور تارکین وطن پاکستانی بیرون ملک سیاسی بنیادوں پر مزید تقسیم ہوئے جب کراچی میں ایم کیوایم کیخلاف مختلف فوجی آپریشنز شروع کئے گئے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں لاتعداد سیاسی کارکن بیرون ملک منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ایم کیو ایم کا سیاسی ہیڈکوارٹر بھی لندن منتقل ہوگیا اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں سیاسی تقسیم زیادہ نمایاں ہوگی۔ میں نے اپنے برطانیہ اور امریکہ کے تجربے سے دیکھا کہ لوگ سیاسی بنیادوں پر اپنے سماجی تعلقات کا فیصلہ کرنے لگے اور محبتوں اور نفرتوں کے فیصلے بھی سیاسی بنیادوں پر ہونے لگے۔ امریکہ میں خاص طور پر کچھ اخباروں اور کمیونٹی ریڈیو سٹیشنز نے اس سلسلے میں انتہائی منفی کردار ادا کیا۔اس تقسیم میں ہمارے بیرون ملک کمیونٹی رہنماؤں کے علاوہ سب سے بڑا قصور ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی اور فوجی قیادت کی سیاست میں دلچسپی اور مسلسل مداخلت رہا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایک معمول کے معاشرے کی طرح جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جاتا اور جمہوری روایت قائم کی جاتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ تارکین وطن بھی عام لوگوں کی طرح سیاسی بنیادوں پر رائے تو رکھتے مگر سیاسی بنیادوں پر سماجی تقسیم کا شکار نہ ہوتے۔ اس سلسلے میں موجودہ قیادت کیلئے ضروری ہے کہ وہ سیاسی اختلاف رائے کی شدت میں کمی لائے اور ایک متوازن جمہوری کلچر کو فروغ دے، نہ کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک لے آئے اور ملک کے سیاسی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے۔ تارکین وطن کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بجائے ان میں اتحاد اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے مدد کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہمارے معاشرے اور تارکین وطن کو صرف جمہوری قدریں ہی مضبوط کرسکتی ہیں۔ ہماری سیاسی قوتوں کو غیرجمہوری عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے غیرجمہوری قوتوں کیساتھ سودا بازی کی جائے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی