1 516

مشرق اور مغرب کو جوڑنے کا خواب

تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے پاکستان کا دور روز ہ دورہ کیا ۔دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ،ثقافت اور دفاع کے حوالے سے کئی معاہدات پر دستخط ہو ئے ۔امام علی رحمانوف اور وزیر اعظم عمران خان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔اس پریس کانفرنس میں دونوں راہنمائوں نے ایک دوسرے کے ملکوں کے بارے میں نیک جذبات کا اظہا ر کیا ۔عمران خان نے کہا ان کا اور تاجک صدر کا جنم دن ایک ہے۔انہوںنے کہا کہ تاجکستان وسط ایشیاکے لئے گیٹ وے ہے ۔دونوں ملکوں کو مشترکہ چیلنج درپیش ہیں۔کوشش ہے کہ دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کریں۔ہم تجارت ،سرمایہ کاری ،توانائی ،ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں باہمی تعاون کریں گے۔پاکستان سٹریٹجک پوزیشن کے لحاظ سے ایسی جگہ پر ہے جو سارے خطے کو جوڑ سکتا ہے۔لیکن اس کا انحصار بھارت پر ہے جب تک بھارت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتا یہ سب کچھ رکا رہے گا۔تاجک صدر امام علی رحمانوف نے بھی پاکستان کی جیو سٹریٹجک اہمیت کا بطور خاص ذکر کیا ۔تاجک صدر کی عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس میں دوطرفہ امور کے علاوہ اسلاموفوبیا کے مقابلے اورافغانستان میں امن کی اہمیت پرزور دیا گیا۔تاجکستان وسط ایشیا کا ایسا ملک جو افغانستان کی طرح چاروں جانب سے خشکی میں گھراہے اور اس کا کوئی سمندری راستہ نہیں ۔ پاکستان اور تاجکستان کو زمینی طور پر افغانستان کی سولہ میل لمبی پٹی واخان باہم جدا کرتی ہے ۔اس طرح تاجکستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد ملتی تو نہیں مگر اس کے باجود دونوں ہمسائے ہی ہیں ۔واخان کی اسی پٹی سے روسیوں کے گلگت بلتستان میں در آنے کاخوف انگریزوں کو ہمیشہ دامن گیر رہا ہے۔ اس خوف کے زیر اثر وہ اپنے فیصلے بدلتے رہتے تھے ۔جن میں کبھی یہ مشق بھی شامل تھی کہ کبھی یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر کی نگرانی میں دیا جاتا اور کبھی وہ خود ان علاقوں کا کنٹرول سنبھالتے ۔ تاجکستان خطے کا واحد ملک ہے جہاں بھارت کا فوجی اڈہ ہے ۔افغانستان کی طویل سرحد جہاں ایک طرف پاکستان سے ملتی ہے وہیں اس کی دوسری سرحد تاجکستان سے بھی ملتی ہے ۔جس طرح پشتون آباد ی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اور مشترکہ قدر اور حقیقت ہے اسی طرح تاجک آباد ی تاجکستان اور افغانستان کے درمیان بڑی حقیقت ہے ۔پشتون اگر افغانستان کی سب سے بڑی آبادی ہیں تو تاجک اس ملک کی دوسری بڑی آبادی ہیں ۔ اس وقت پشتون اشرف غنی افغانستان کے صدر ہیں تو تاجک لیڈر عبداللہ عبداللہ دوسرے اہم لیڈر ہیں ۔وہ افغانستان کے طاقتور صدارتی امیدوار تھے مگر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔افغانستان کی پاور گیم میں پشتون اور تاجک آبادیوں کا ایک ہی مرکزی دھارے میں رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔طالبان کے اقتدار کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ احمد شا ہ مسعود کی صورت میں تاجک قیادت طالبان کے خلاف رزم آرا تھی اور انہوںنے طالبان کی شمال کی جانب پیش قدمی کو ناکام بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔پاکستان اگر طالبان کے ساتھ راہ ورسم رکھتا ہے تو لامحالہ تاجکستان شمالی گروپوں کے ساتھ رابطے میں ہوگا اور اس گروپ کی نمائندگی عبداللہ عبداللہ کر رہے ہیں۔اس لحاظ سے تاجکستان اور پاکستان کا افغانستان کے حوالے سے ایک جیسا موقف اپنانا اپنے اندر گہری معنویت کا حامل ہے ۔دونوں ملکوں کے لئے افغانستان میں امن کا قیام خود ان کی اپنی داخلی صورت حال کے لئے ناگزیر ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں امن دونوں ملکوں کی مجبوری ہے ۔ایران پاکستان اور تاجکستان جیسے ملکوں کا افغانستان کو پرامن دیکھنا خالص داخلی ضرورت کے تحت ہے ۔ بھارت کو اس آگ سے براہ راست کوئی نقصان نہیں اس لئے وہ آگ بھڑکا کرہاتھ تاپنے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ افغانستان کی بدامنی کے اثرات سب سے زیادہ ہمسایہ ملکوں کو ہی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔یوں تو اس دورے کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدات ہوئے مگر بھارتی میڈیا نے صرف اس خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا کہ پاکستان نے تاجکستان کو اسلحہ کی فروخت کا معاہدہ کیا ہے۔پاکستان کی جیو سٹریٹجک پوزیشن اس لحاظ سے اہم کہ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتا ہے مگر اس را ہ کی اصل رکاوٹ بھارت اور بھارت کا رویہ اور ضد وہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیاں ہیں ۔عمران خان نے اس موقع پر بھی کشمیریوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشرق اور مغرب کو جوڑنے کا یہ عمل اس وقت تک رکا رہے گا جب تک بھارت مسئلہ کشمیر حل نہیں کرتا ۔دوسرے لفظوں میں وہ علاقے کے ملکوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ انہیں آگے بڑھ کر بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کرنا چاہئے تاکہ مشرق اور مغرب کو جوڑنے کا تاریخی خواب تعبیر میں ڈھلنا شروع ہو۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں