syed fakhar kakakheil

کوہاٹی چرچ دھماکہ اور سات سالہ حکومت

اتوار کا دن کلینڈر میں سرخ اعداد میں لکھا جاتا ہے لیکن کسی کو کیا پتا تھا کہ 22 ستمبر 2013ء کوہاٹی چرچ میں دو خودکش حملہ آور سو سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اس تاریخ کو انسانی لہو سے سرخ کر دیں گے۔ وطن عزیز میں یہ مسیحی برادری پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ تھا۔چرچ حملہ کے سات برسوں کی کہانی دراصل موجودہ حکومت کے سات سالہ دور کی داستان ہے۔ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ کہانی آپ کو سوشل میڈیا پر نظر نہیں آئے گی، نہ ہی صحافیوں کے وٹس ایپ گروپس میں ملے گی، کیونکہ ان کہانیوں کے لئے نکلنا پڑتا ہے، تاریخ کی جانچ کرنی پڑتی ہے، سوالات اٹھانے پڑتے ہیں اور اس کے جوابات کی کھوج کرنی پڑتی ہے۔ پشاور کے رہائشی اگسٹن جیکب سات برس بعد بھی اس سانحہ کو ایسے یاد کرتے ہیں جیسے کچھ ہی لمحوں پہلے کی بات ہو۔ ان کے سات پیارے اس حملہ میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ جیکب کی کہانی بھی عجیب ہے وہ جب بھی اس واقعہ کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے تو وقت اسے جھنجھوڑ کر دوبارہ یاد دلاتا ہے۔ حال ہی میں اپریل کو سات برس قبل دھماکہ میں زخمی ہونے والے ان کے رشتہ دار عقیل عارف بالآخر زخموں سے لڑتے لڑتے تھک کر فوت ہوگئے۔ دھماکہ کے بعد ان کے اکیس بڑے آپریشن ہوئے۔ اوسطاً ہر سال تین آپریشن بھاری معاوضہ کے تحت کرانے پڑے۔ وہ سکول ٹیچر تھے۔ دھماکہ میں ٹانگ سے محرومی کے بعد پنشن سے ہی اپنا اور گھر کا خرچہ چلاتے رہے جبکہ اگسٹن جیکب مسیحی برادری کے دوسرے لواحقین کی طرح عقیل عارف کے علاج کے لئے در درکی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ آخری مرتبہ بھی وہ عقیل عارف کے ساتھ پشاور پریس کلب میں اقلیتوں کے لئے اعلان کردہ انڈوومنٹ فنڈز کے حصول کے لئے پریس کانفرنس میں نظر آئے تھے۔ان کا ماننا ہے کہ جو فنڈز بھی صوبائی حکومت کو ملے ہیں وہ چرچ حملہ کے متاثرین کے لئے تھے اور اگر حکومت اقلیتی برادری کے لئے کسی فنڈ میں سنجیدہ ہے توالگ سے اپنے پیسوں سے قائم کردے۔ جس کی وہ نہ صرف مکمل تائید کریں گے بلکہ اس میں مسیحی برادری کی جانب سے اپنا حصہ بھی ڈالیں گے۔اب میرے کئی سوال تھے اور میرے سامنے اس وقت کو یاد کرتے اگسٹن جیکب۔ اہم سوال یہ تھا کہ دھماکہ میں زخمی ہونے والے عقیل عارف سمیت کئی زخمیوں کے لئے حکومت کی عطا کردہ رقم تو علاج کی ایک ہفتے کی رقم بھی نہیں بنتی تھی تو حکومت نے ان زخمیوں کے علاج میں کتنی مدد کی؟ خصوصاً اب جب عقیل عارف کا شمار دھماکہ سے پہلے زخمی اور اب جاں بحق افراد میں ہوا ہے تو سات برس بعد ان کی امداد کس طرح ہوگی؟ اس وقت سندھ اور وفاق نے کروڑوں روپے امداد کا وعدہ کیا تھا وہ رقم کہاں گئی؟اور واقعہ کی تفتیش کہاں تک پہنچی؟ اس طرح سات برس بعد اس موت نے اس واقعہ سے جڑے کئی سوالوں کو میرے ذہن میں جنم دیا تھا جن کے جواب حاصل کرنا ضروری تھا۔ بہرحال اگسٹن جیکب نے بتایا کہ شروع میں علاج معالجہ کی حکومتی کارکردگی دیکھ کر علاج کے سارے اخراجات ایک فلاحی ادارے نے اٹھائے اور زخمیوں کا علاج پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں انتہائی بھاری اخراجات ادا کرکے کرایا گیا۔ جیکب کے بقول سندھ اور وفاق نے بیس کروڑ روپے فراہم کئے لیکن صوبائی حکومت نے کہا کہ اس کو خرچ کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ اس طرح کوہاٹی چرچ دھماکہ متاثرین کے لئے حاصل کئے جانے والے فنڈ کو تمام اقلیتوں کی بحالی کے لئے مجوزہ فنڈز کی مد میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ جب کروڑوں روپے کا یہ فنڈ موجود تھا تو پھر اتنی کسم پرسی کی حالت میں عقیل کی موت کیوں؟ جواب ملا کہ سات برس ہو چکے ہیں لیکن متاثرین کو فنڈ سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ جن بچیوں کے لئے یہ فنڈ رکھا گیا ہے ان میں سے کئی کی تو شادیاں تک ہو چکی ہیں۔ جیکب نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ عدالتوں کے چکر کاٹے، حکمرانوں کے دفاتر کے طواف کئے لیکن مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہو۔ سو سے زائد مسیحی شہریوں کی موت اب ایک فائل بن کر رہ گئی ہے جو اس وقت بھی کسی نہ کسی بابو کی دراز میں پڑی ہوگی۔ جہاں تک تفتیش کا تعلق ہے تو اس کا حال بھی پشاور کے دیگر دھماکوں سے مختلف نہیں۔ بتایا گیا کہ سی ٹی ڈی کے قیام کے بعد پولیس نے یہ کیس ان کو سونپ دیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ایک مبینہ ملزم کی حراست ہو چکی تھی جسے بعد میں رہائی بھی مل چکی ہے۔ پانچ دیگر ملزمان روپوشی میں ہی کسی ڈرون حملے کا شکار ہو چکے ہیں(لیکن کنفرم نہیں) جبکہ دونوں خود کش حملہ آوروں کا تعلق تیراہ خیبر ایجنسی سے تھا۔ اس طرح یہ فائل بھی بند کر دی گئی ہے۔ ویسے دوران گفتگو جیکب نے بھی ایک سوال اٹھایا کہ اگر چرچ حملہ لواحقین کی رقم کو اقلیتی برادری کے نام پر مختص کیا جاتا ہے تو وہ دو مسلمان پولیس اہلکار جنہوں نے اس حملہ میں اپنی جانیں قربان کردیں ان کے لواحقین کا کیا ہوگا؟ ہم نے تاریخ سے یہی سیکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔اس لئے تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ یہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم نہیں سیکھتے تو تاریخ مڑ کر آتی ہے اور آکر ہمیں زور کا تھپڑ مار کر ہمیں سکھانے کی ایک کوشش ضرور کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند