logo 84

اگلے مالی سال کا وفاقی میزانیہ

آئندہ مالی سال کے لئے تین ہزار ایک سو چون ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہی پیش نہیں ہوا ہے بلکہ آمدنی اور اخراجات کے تخمینے میں بھی واضح فرق ہے بجٹ دستاویزات کے مطابق آمدن کا تخمینہ سات ہزار نوسو نواسی ارب روپے جبکہ اخراجات آٹھ ہزار پانچ سو ستائیں ارب روپے سے زائد ہے ۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر تین ہزار ساٹھ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں البتہ بعض اشیاء سستی بعض میں مختلف مدوں میں چھوٹ زراعت و توانائی کی ترقی پر توجہ کے ساتھ ساتھ بلا سود قرضوں کی فراہمی ‘سستے قرضے اور فنی تربیت کی فراہمی کے منصوبے مثبت عوامی اور قابل ذکر ہیں۔ وفاقی میزانیہ اور ملکی معاشی صورتحال اقتصادی حالات ‘ کورونا سے پیدا شدہ مشکل صورتحال جیسے معاملات کے حقائق کو مد نظر رکھا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقروض ملک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی وصولی کی شرائط اور آئی ایم ایف کی مرضی و منشاء کی رعایت رکھنے کی مجبوری کے ساتھ عوام دوست اور فلاحی بجٹ پیش کرنے کی توقع حقیقت پسندانہ امر نہ ہو گا۔اگر ہم بجٹ کا ان حقائق کی روشنی میںجائزہ لیں تو حکومت کی مشکلات کو سمجھنے عوامی توقعات پر پورا نہ اترنے کو پرکھنے اور تنقید کرنے والوں کی تنقید کو درست یا خلاف حقیقت گرداننے کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ ایک مقروض ملک کی حکومت وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سے مراعات کی توقع کس حد تک حقیقت پسندانہ ہوگا اس کا اندازہ خود ہی لگا لیجئے مستزادجس ملک کو قرضوں کی ادائیگی جی ڈی پی کا غالب حصہ خرچ کرنا پڑتا ہو۔ تو عوام کو کیسے اور کہاں سے ریلیف دیا جائے گا یا ایسا کرنا ممکن ہو گا۔ صرف یہی نہیں ملک کا تجارتی خسارہ مکمل بڑھ رہا ہو درآمدات و برآمدات کے توازن میں واضح بگاڑ ہو غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہو ایسے میں ملکی خزانہ سرکاری مشینری کو گھسیٹ بھی لے تو غنیمت ہو گی۔بجٹ کو حکومتی دعوئوں کے تناظر میں اور نہ ہی حزب ا ختلاف کی آنکھیں بند کرکے شدید تنقید کے تناظر میں دیکھنا چاہئے اس کے بجائے بجٹ کو معاشی اہداف اور اعشاریوں کے تناظر میں اعداد و شمار کے مطابق دیکھا جائے تو حقیقت بڑی حد تک واضح ہو گی۔ بجٹ کی تعریف میں حکومت اور اس کے حامیوں کا آسمان کے قلابے ملانا اور حزب اختلاف کو اسے عوام دشمن بجٹ گرداننا وہ سیاسی مجبوریاں اور عوام کو حقائق سے دور رکھنے کی شعوری اور جان بوجھ کر کوشش ہے کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کی سی کیفیت ہوتی ہے اور یہ سلسلہ دنوں نہیں کئی ہفتوں جاری رہتا ہے ۔مباحث غیر جانبدارانہ اور حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی ہونے چاہئیں اور یہی عوام کی درست رہنمائی کا تقاضا ہے اس طرح کا کلچر بن جائے تب جا کر عام آدمی کے لئے بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقی دستاویز بن سکتی ہے جسے ہر آدمی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سمجھنے کی سعی کر سکتا ہے ان حالات سے قطع نظر بجٹ کے اثرات سامنے آنے میں بہت زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں تو ہر آدمی کم از کم اپنے شعبے کی حد تک اس کی تفصیلات کی نہیں تو جزئیات کی سمجھ ضرور آنے لگتی ہے مثال کے طور پر ایک عام آدمی اور سادہ لوح سے سادہ لوح شخص کے لئے بھی بجٹ اثرات سے متاثر ہونے پر آگاہی کی سادہ صورت مہنگائی میں اضافہ اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔خیبر پختونخوا میں عوام کی جانب سے دوسری بار تحریک انصاف کی حکومت پر اعتماد کے تناظر میں صوبے کے عوام کی توقعات فطری امر ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سندھ کی حکومت اور پیپلز پارٹی دبائو ڈال کر بجٹ میں اپنا خطیر حصہ مختص کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اورپختونخواکی صوبائی حکومت مروت کا شکار ہو کر نظر التفاف سے محروم ہو گئی اس ضمن میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ‘ وزیر خزانہ اور حکومتی اراکین کی مصلحت اور مشکلات کو سمجھنا مشکل نہیں صوبے کے وسائل اور حقوق کی جنگ بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات سمیت ادائیگی ضم اضلاع کے حصے کے حصول کی مساعی جیسے معاملات کو سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر دیکھنے اور جدوجہد کی ضرورت ہے اس ضمن میں حزب اختلاف کو کھل کر کردار اداکرنا چاہئے یہ ان کی سیاسی تحرک کا باعث امر بھی ہو گا اور صوبائی حکومت اور صوبے کی بالحکمت دستیگری اور تعاون بھی ہو گا۔ضم اضلاع میں ٹیکس کی واپسی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے کا فیصلہ احسن ہے ۔ لائیو سٹاک اور زراعت کے حوالے سے بھی اقدامات اطمینان کا باعث امر ہیں۔ بجٹ میں ٹیکس کم لگائے گئے ہیں اور گروتھ پر توجہ دی گئی ہے جوں جوں تفصیلات اورجزئیات کی پرتیں کھلتی جائیں گی توں توں بجٹ کے خدوخال واضح ہوں گے بہرحال اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے کسی حد تک اپنی سمت ضرور درست کر لی ہے ۔ بجٹ میں مثبت اور منفی دونوں چیزیں موجود ہیں حکومت معیشت بحال کرنے اور منی بجٹ نہ لانے میں کامیاب ہوئی تو یہ اطمینان کا باعث امر ہو گا اخراجات پر قابو پانے اور درآمدات و برآمدات میں توازن غیر ملکی سرمایہ کاری کا حصول بدعنوانی کا خاتمہ اور ترقیاتی منصوبوں کی فراہمی جیسے معاملات ضروری ہیں جن پر بجٹ اور بعداز بجٹ پورا مالی سال مسلسل توجہ اور عمل کی ضرورت ہے شب و روز جدوجہد اور دیانتدارانہ طرز عمل شرط ہے ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!