1 527

بجٹ کا آسان مفہوم

پاکستان میں آپ کسی بھی بجٹ کو اٹھائیں ‘ اس کے بارے میں دو چیزیں ہر پاکستانی کو معلوم ہیں ۔ ایک یہ کہ اہل اقتدار کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہان ”مشکل حالات”میں ہماری حکومت نے ایک بہترین عوام دوست اور غریب پرور بجٹ پیش کیا ہے جبکہ حزب اختلاف یعنی اپوزیشن کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم اس بجٹ کو یکسر مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس میں الفاظ کے ہیر پھیر اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ غریب عوام کے لئے اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔سرکاری ملازمین کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اور اس بجٹ کے پاس ہونے کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان اٹھے گا ‘ وغیرہ وغیرہ
اگرچہ بجٹ پر بات کرنے کے لئے معاشیات میں مہارت اور ملکی منڈیوں ‘ تجارت ‘ آمدن ‘ اخراجات ‘پیداوار ‘ کھپت اور صنعت و انڈسٹری ‘ زراعت وغیرہ پر پورا سال کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے جب بھی بجٹ کے دن آتے ہیں اور بالخصوص بجٹ کے دن ماہرین معاشیات ٹی وی چیلنوں پر زور دار بحث و مباحثے اور مکالمے و گفتگو کرتے ہیں ان مناظر میں بھی حکومت کے طرف دارو ہمدرد صحافی ماہرین معاشیات اور دانشور وغیرہ حکومتی بجٹ کو عوام دوست اور معتدل بجٹ قرار دینے کے لئے ہزار دلائل تراشتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے گریز نہیں کرتے جبکہ اپوزیشن کے حامی و طرفدار اس کو عوام کے لئے سم قاتل سے کم نہیں سمجھتے ۔۔۔ لیکن چھوڑیے ۔ یہ معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے کیونکہ گزشتہ ستر برسوں سے اس طرح چلتے آئے ہیں۔
آج ان سطور میں اس کے باوجود کہ ہمارا براہ راست تعلق نہ ماہرین معاشیات سے ہے اور نہ ہی بجٹ کے حوالے سے کچھ علم و معلومات رکھنے کے دعویدار ہیں ‘ لیکن اپنے قارئین اور عوام کے ساتھ بجٹ پر معاشیات ‘ اکنامکس اور اکائونٹسی کے خاص اعداد و شمار اور اصلاحات سے ہٹ کر سادہ انداز میں تحریک ا نصاف حکومت کے اس تیسرے بجٹ پر اپنی رائے میں شامل کرتے ہیں۔ چونکہ ہم سب سربراہ خاندان کی حیثیت سے اپنے گھر کے خرچ اخراجات چلاتے رہتے ہیں ‘ لہٰذا بجٹ سادہ الفاظ میں اس حساب کتاب اور معاشی اندازوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں گھر اور ملک کی آمدنی اور خرچ کا حساب لگا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ جس طرح ایک گھر کی آمدن ہوتی ہے اس کے مطابق صحت ‘ تعلیم ‘ خوراک ‘ کپڑوں اور دیگر ضروریات زندگی کے لئے انتظام کیا جاتا ہے بالکل ایسی ذرا اعلیٰ اور بڑے پیمانے ملک کی آمدن کے مطابق سال بھر کے لئے مختلف محکموں اور شعبوں کو چلانے اور ترقی دینے کے لئے رقم مقررکی جاتی ہے اور اس عمل سے گزرنے کے معاملات کو بجٹ کہتے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت کے پہلے دو بجٹوں سے عوام مہنگائی کے سبب اور سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کے سبب سخت ناراض ‘ نالاں اور پریشان تھے ۔۔۔ وزیر اعظم کا یہ جملہ تو بہت مشہور ہوا ہے کہ ”گھبرانا نہیں” اپوزیشن والوں نے اس کا مذاق بھی اڑایا ‘ لیکن عمران خان مسلسل کہتے رہے کہ چونکہ ملک کی آمدنی مختلف وجوہ و اسباب سے بہت کمزور ہے لہٰذا ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عوام کو فی الفور ریلیف اور مدد دے سکیں۔ وہ عوام کو تسلی اور امید دیتے رہے کہ جونہی حالات ٹھیک ہوں گے ہماری پہلی کوشش عوام کو سہولیات کی فراہمی ہو گی۔
اس بناء پر موجودہ بجٹ مثالی نہ سہی ‘ موجودہ حالات میں زیادہ معاشی ماہرین کے مطابق ایک معتدل اور اس لحاظ سے عوام دوست اور سادہ سا بجٹ ہے کہ اس میں عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ دو برس پہلے حکومت کے پلے کچھ تھا ہی نہیں۔ ٹیکس کولیکشن کمزور تھی۔ قرضے بہت چڑھے ہوئے تھے ‘ حکومت کی ہر چیز ایک لحاظ سے گروی رکھی ہوئی تھی ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اربوں ڈالر تھا۔ اس دوران جو پہلا اچھا کام ہوا ہے وہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہونا ہے ۔ اس بجٹ میں بھی ہماری کل آمدنی کا 36فیصد قرضوں میں چلا جائے گا۔ دفاع کے لئے بڑے بجٹ کی ضرورت ہے لیکن پاک افواج نے پیٹ پر پتھر باندھتے ہوئے صرف سولہ فیصد جس میں پنشن بھی شامل ہے ۔ اس کے مقابلے میں بھارت کا دفاعی بجٹ چار گنا ہے ۔ ترقیاتی بجٹ کو 600 ارب سے بڑھا کر 900 ارب کیا گیا ہے جس سے ملک ترقی کرے گا۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا ہے جو لوگوں کو کم لگے گا لیکن ملکی حالات کے مطابق یہ بھی بہت زیادہ ہے لہٰذا عوام ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر صبر سے کام لیں۔ اس بجٹ میں زراعت ‘ ڈیموں (پانی کی فراہمی) بجلی ‘ سڑکوں ‘ سی پیک ‘ سپیشل اکنامک زون کو فعال کرنا تاکہ معاشی و پیداوار سرگرمیاں ترقی کریں۔ ماحولیات کے تحفظ کے لئے شجرکاری اور دیگر انتظامات اور آئی ٹی کے شعبوں کے لئے اچھا بجٹ رکھا گیا ہے ۔ بجٹ کے اچھے برے ہونے کے بارے میں بحثیں چلتی رہینگی۔۔ لیکن خدا لگتی بات یہی ہے کہ ان مشکل حالات میں یہ بجٹ جس کے بارے میں اپوزیشن کا دعویٰ کا کہ پاس ہی نہیں ہو سکتا ‘ زیادہ اچھا نہ سہی ‘ زیادہ برا بھی نہیں ہے ۔ پاکستان کی معاشیات صحیح راہوں پر چل پڑی ہے اور بہت جلد مشکلات دور ہوں گی کیونکہ پاکستان ایک بہت بڑے مقصد کے لئے وجود میں آیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!