4 397

مشرقِ وسطیٰ کا بدلتا منظرنامہ

اسرائیل کے معرضِ وجود میں آتے ہی مشرقِ وسطیٰ کا امن و سکون غارت ہو گیا تھا اب بھی یہ خطہ مسلسل جنگوں کا مرکز ہونے کی بنا پر عدمِ استحکام کا شکارہے لیکن کچھ عرصہ سے غیر متوقع واقعات کی بنا پر منظر نمامے ایسی تبدیلی آئی ہے جس کے بارے چند برس قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اب بھی بہت سے لوگ انہونیوں سے ورطہ حیرت میں ہیں، مثلاََ وہی عرب ممالک جو کبھی اسرائیل کے بدترین مخالف تھے اب ان کی مخالفانہ جذبات کی برف پگھل رہی ہے، متحدہ عرب امارات نے تو صیہونی ریاست سے بغیر ویزہ آمد و رفت کا معاہدہ کر لیا ہے، مراکش نے بھی متنازع علاقے پر امریکا کی طرف سے مراکشی حاکمیت تسلیم کرنے کے عوض تل ابیب سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں، موجودہ سعودی قیادت کی سوچ اس حدتک تبدیل ہوچکی ہے کہ وہ اسرائیل کو ثانوی اور ایران کو اولیں خطرہ سمجھتی ہے بدلتے منظر نامے کی وجہ عرب ممالک کا ذاتی مفادات ،معاشی فوائد اور خوف کے زیرِ اثر اسرائیل سے سفارتی مراسم استوار کرنا ہے لیکن جہاں ایک طرف یہ انہونی ہو رہی ہے وہیں کویت اور تیونس جیسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنا تو درکنا کاروبار کرنے کو بھی جرم قرار دینے کی قانون سازی کی طرف آنے لگے ہیں یہ تبدیلی کافی حیران کن ہے اور غیر متوقع بھی، مگر اس تبدیلی نے واضح کر دیا ہے کہ عربوں میں یہ سوچ تقویت پکڑ رہی ہے کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اسی لیے مقابلے کی بجائے تعاون کی طرف آئے ہیں مگر سوچ کی تبدیلی کے باوجود امن کے حوالے سے خطہ مشکلا ت سے دوچار ہے۔
صدر ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر نے عربوں کی سوچ بدلنے کے لیے کافی محنت کی مگر ٹرمپ کے پہلے بیرونی دورے کا سعودی عرب سے آغاز کا بھی بڑاعمل دخل ہے اسی دورے سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذکر لیا کہ امریکا عربوں کو اسرائیل کا مطیح و فرمانبردار بنا کر خطے سے جنگوں کے امکانات کم کرنا چاہتا ہے مگر امریکی تمنا اس حد تک ہی پوری ہوئی ہے کہ اسرائیل کو لاحق خطرات میں کمی واقع ہوئی ہے مگر جنگوں کے امکانات بدستور موجود ہیں گزشتہ ماہ 21 مئی سے غزہ پر گیارہ روز جاری رہنے والی بمباری امکانات کی تصدیق کرتی ہے جس کے دوان سینکڑوں اموات وہزاروں زخمیوں کے ساتھ 75 ہزار سے زائد فلسطینی بے گھر ہوئے ان حالات میں مشرقِ وسطیٰ کے منظر نامے میں جتنی بھی تبدیلی آئے بدامنی کے چھائے بادل کم نہیں ہو سکتے، کیونکہ ناانصافی سے بے سکونی اور بد اعتمادی جنم لیتی ہے، اسی بداعتمادی کی بنا پر سعودی عرب کو اسرائیلی مسافر طیاروں کو فضائی حدود استعمال کرنے کی رعایت واپس لینا پڑی یہ سخت فیصلہ چاہے عوامی دبائو کی مرہونِ منت سہی،لیکن اس سے واضح ہو تا ہے کہ مختلف اختلافات کے باوجود عرب اضطراب کا شکارہیں نیز اسرائیل کے متعلق پائی جانے والی بد اعتمادی کا خاتمہ بھی نہیں ہو سکا۔
کیا عربوں نے پالیسی بنانے کا فریضہ امریکا کوسونپ کراسرائیلی بالادستی قبول کر چکے ہیں بظاہر کچھ حوالوں سے ایسا ہی نظرآتا ہے لیکن یہ کلی طور پر درست نہیں بلکہ متبادل کی تلاش پر بھی کام جاری ہے اور مفادات کے تناظر میں کچھ حوصلہ افزا اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں ایک طرف سعودیہ و ایران میں دوریاں کم ہونے کا تاثر ملتا ہے جس کے لیے دونوں ملکوں کی اعلٰی قیادت اختلافات کی خلیج کم کر نے پر اتفاق کر چکی ہے سعودی قیادت قطر کا بائیکاٹ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد اب شام سے سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے لیے بھی کوشاں ہے بلکہ باوثوق ذرائع اس کے لیے بیک ڈور مزاکرات کی کامیابی کی جلد نوید سننے کا امکان ظاہر کرتے ہیں اس سے ایک بات تو عیاں ہوتی ہے کہ سعودی عرب کا مزاج تبدیل ہوا ہے اور اب وہ مفاہمانہ روش پر چلنے لگا ہے اس میں شامی صدر بشار الا اسد کی حال ہی میں بھاری اکثریت سے صدارتی کامیابی کا عمل دخل ہے یا دیگر عوال ہیں مشرقِ وسطیٰ کے منظر نامے میں بڑی تبدیلی ہے۔
عربوں کی مشکلات دفاع تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ جوں جوں دنیا کا تیل پر انحصار کم ہو رہا ہے عرب ممالک کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہونے لگا کئی دہائیوں سے تیل کی آمدن پر انحصار کرنے والے عرب ممالک گرتی قیمتوں سے معاشی دبائو کا شکار ہیں اور متبادل زرائع کی تلاش میں ہیں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام
مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد

کویت کا بجٹ خسارہ کل معیشت کاچالیس فیصد ہونے والا ہے تیل کی آمدن کم ہونے کے بعد عراق ،عمان اور سعودی عرب شہری سہولتوں کو کم کرنے اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں یا پھر محفوظ ذخائر میں سے کچھ استعمال میں لانے لگے ہیں کچھ ممالک نے قرض کا آپشن اپنا لیا ہے آیا خراب معاشی حالت نے عربوں کی سخت مخالفانہ سوچ کو نرم کیا ہے اور وہ خطے میں موجود تنائو کم کر نے پر مجبور ہوئے ہیں اس سوال کو مکمل طور پر جھٹلانا ممکن نہیںشاید اسی لیے اسرائیل سے تعلقات نارمل بنا کر دفاعی اخراجات میں کمی کرنا چاہتے ہیں لیکن عرب فیصلہ سازی میں تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں اسی لیے مشرقِ وسطیٰ کا بدلتا منظر نامہ عرب مفاد کے لیے بظاہرسازگاردکھائی نہیں دیتا۔