p613 359

مشرقیات

حاجی صاحب الحاج بننے سے پھر رہ گئے ۔ برا ہو کورونا وبا کا ان جیسے نیک وپارسا لوگوں پر بھی دنیا نے پابندیاں لگا دیں۔ حالانکہ ان کا عبادت کا ذوق و شوق دیکھ کر کورونا بھی بغیر سلام دعا کئے ان کے قریب نہیں پھٹک سکتا۔ بہرحال وہ دوسری مرتبہ حج پر جانے سے رہ گئے۔ پہلی مرتبہ وہ کورونا وبا سے قبل فریضہ حج کرنے کی نیت باندھ چکے تھے کہ ان کی درخواست رد کردی گئی تھی۔سخت قلق کی حالت وہ ادھر اُدھر دیار مقدس جانے کا راستہ تلاش کرتے رہے ۔ ان کے علاقے میں افغانیوں کی بھیڑ تھی۔ حلیہ، چال چلن حتیٰ کہ نسلی طور پر وہ خود بھی افغان ہی تھے۔ ایک ایجنٹ نے ان سے بیس ہزار روپے تھامے اور دو دن بعد افغانی پاسپورٹ ان کے حوالے کردیا ۔اگلے دو دن ایک دوسرے ایجنٹ سے افغان مہاجرین کے کوٹے پر دیار مقدس جانے کیلئے ساز باز بھی کر لی۔ائیرپورٹ پر امیگریشن والوں کی عقابی نگاہوں سے بچ نہ پائے، تاہم یہاں بھی حساب بے باک کر کے نگل گئے ۔ چونکہ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے اس لئے انہوں نے اپنی نیت کی راہ میں کسی مشکل کو آڑے آنے نہیں دیا اور حج کر کے ہی لوٹے۔جہاں شیطان کو کنکریاں مارنے میں ان سے زیادتی ضرورہوگئی۔ کنکریاں مارتے ہوئے وہ گنتی بھول گئے تھے اور پھر سے شروع کرکے سات پوری کیں۔واپس آ کر سب کو فخر سے بتاتے رہے کہ انہوں نے دو دفعہ شیطان کو مارا۔ بہر حال فریضہ حج ادا کر کے پھر وہ اصلی نسلی پاکستانی بن گئے ۔چونکہ ان کے والد مرحوم الحاج تھے اس لئے الحاج بننے کی تڑپ فطری طور پر ان میں موجود تھی ۔کاروبار کی طرح نیکی و پارسائی بھی انہیں والد مرحوم سے ورثے میں ملی تھی۔ خود ہی نہیں ان کے ملازمین بھی گواہی دیتے کہ بڑے الحاج مرحوم کتنے زاہد و پرہیزگار تھے ۔خاص کر رمضان میں عبادت کایہ عالم ہوتا کہ صبح سے شام تک مسجد میں عبات ریاضت میں مصروف ہوتے۔ ادھر منڈی میں ان کے ملازمین تمام کاروبار کی ان کی ہدایت کے مطابق دیکھ بھال کر لیتے۔کون سی چیز مہنگے داموں کیسے بیچنی ہے ،کہاں ذخیرہ کرنی ہے، قلت پیدا کرنے کے طریقے کیا ہیں ،حاجی صاحب سب اپنے ملازمین کو سمجھا کر مسجد میں گوشہ نشین ہوجاتے ۔ان کی اس کاروباری سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہی ہوتا کہ رمضان میں ایک مہینے کی کمائی سال بھر کی آمدنی سے تجاوز کرجاتی ،لوگ ان کی دن رات ترقی کو بہر حال ان کی عبادت و ریاضت کا نتیجہ ہی قرار دیتے ۔اسی خیروبرکت والی آمدنی سے انہوں نے شہر کے پوش علاقے میں عالیشان بنگلہ بنوایا تو” ہذا من فضل ربی”کی تختی اپنے مبارک ہاتھوں سے لگائی ۔تختی پر ان کا نام الحاج کے لاحقے کے ساتھ نمایاں درج تھا ۔یہ بنگلہ بھی الحاج مرحوم سے حاجی صاحب کو وراثت میں ملاہے اب وہ اس چکر میں ہیں کہ کسی طرح دوسری بار حج ادا کر آئیں تاکہ گیٹ کے دوسری سائیڈ پر لگی ان کے نام کی تختی کے ساتھ الحاج کا اضافہ کیا جاسکے ۔ چند سال قبل تختی بنواتے ہوئے انہوں نے اس پر الحاج کے الفاظ کیلئے گنجائش چھوڑ رکھی تھی اب وہ اس خالی جگہ کو پرکرنے کے لئے بے چین ہیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات