1 528

اتنا آسان بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا

سیاست میں موروثیت کیا صرف ہمارا مسئلہ ہے ؟ مولانا محمد خان شیرانی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو تنقید کا سلسلہ ‘ اخباری اطلاعات کے مطابق ‘ تیز کرتے ہوئے ان پر عالیشان جائیدادوں کا مالک بھی قرار دیا ہے جنہیں بقول مولانا شیرانی کے ‘ زرداری بھی دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے اور ان کی حیرانی دیدنی تھی ‘ مولانا شیرانی نے یہ الزام بھی لگایا کہ مولانا فضل الرحمان نے چار بڑے عہدے گھر میں رکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ پارٹی نہیں خاندان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔مولانا شیرانی کے الزامات اپنی جگہ تاہم ہمارا سوال اپنی جگہ کہ سیاست میں موروثیت کیا صرف ہمارا مسئلہ ہے؟ سات سمندر پار جانے سے پہلے ہم ذرا ہمسائے پر ہی نظر ڈال لیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ اس ”مرض” میں ہمارے ہمسائے کی سیاسی جماعتیں بھی مبتلا ہیں ‘ اور بھارت کی بانی جماعت کانگریس ابھی تک موروثیت کی زد میں ہے یعنی اس جماعت پر نہرو کے بعد انہی کی دختر ”نیک اختر” اندرا گاندھی اور ان کے بعد ان کی اولاد قبضہ مافیا کی طرح اپنے پنجے گاڑ چکی ہے ‘ یعنی اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی اقتدار میں رہے ‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت میں گاندھی خاندان کی طرح ہمارے ہاں بھٹو کے بعد ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو زرداری اور اب ان کی اولاد بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں ‘ گویا دونوں کی سیاسی تاریخ تقریباً ایک جیسی ہے ‘ اگرچہ موروثیت کے حوالے سے پیپلز پارٹی پر ناقدین کئی طرح کے سوال اٹھاتے ہیں جن پر اس وقت کوئی تبصرہ مناسب نہیں تاہم اسی سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا موروثیت (اگر اسے سیاست میں جائز قرار دیاجائے) صرف حقیقی موروثیت یعنی باپ کے بعد بیٹا ہی کی شکل میں ہونا چاہئے؟ جبکہ ایسا ہے نہیں یعنی موروثیت ہمارے ہاں ایک اور شکل میں بھی رائج ہے ‘ حقیقی موروثیت کی بہترین مثال تو صرف باچا خان اور ولی خان خاندان میں ہی نظر آتی ہے جہاں اسفندیار اور اب ایمل ولی کی شکل میں پارٹی پربقول شخصے ”قبضے” کا سلسلہ دراز ہوچکا ہے ‘ اور دوسری جماعتوں میں حالات قدرے مختلف یوں ہیں کہ جو لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ ان کے ہاں موروثیت نہیں ہے بلکہ ”جمہوریت” ہے تو اس کے ”جمہوری چہرے” پر پڑے ہوئے پردے کو ہٹا کر دیکھنے کی ضرورت یوں ہے کہ ایک تو مولانا شیرانی کے الزامات سے بہت کچھ واضح ہوتا ہے جو اگرچہ جمعیت علمائے اسلام کی جمہوریت کو”بے نقاب” کر رہا ہے ‘ مگر جب ایم ایم اے کے بینر تلے طاقت کے اصل مراکز نے خیبر پختونخوا میں اسلامی جماعتوں کو ایک خاص مقصد کے لئے اقتدار سونپنے کا کھیل رچایا تو تب نہ صرف تینوں ایوانوں یعنی صوبائی اسمبلی ‘ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اندر بھی اے آر ڈی پر اثر رکھنے والی جماعتوں نے اپنے اپنے خاندانوں میں ٹکٹ بانٹ کر اس نئی قسم کی موروثیت کو مضبوط کیا ‘ یعنی اپنے ہی قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹ دیئے ‘ یہاں تک کہ بہو بیٹیوں کو بھی ان ایوانوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب کرواکے کے پانچ سال تک قوم پر مسلط کئے رکھا ‘ اس وقت نہ تو مولانا شیرانی اور نہ ہی کسی اور اس صورتحال پر کوئی اعتراض کیا ‘ بلکہ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے ایک رکن پروفیسر خورشید احمد کو صوبہ خیبر پختونخوا سے سینٹ کی نشست پر ٹیکنو کریٹ کی سیٹ دے کر صوبے پر مسلط کیا جنہوں نے کبھی اس صوبے کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ‘ یعنی بقول شاعر
اس رنگ تعلق پہ تعجب ہے کہ ہم لوگ
موجود تو ہوتے ہیں میسر نہیں ہوتے
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب مفادات کی گنگا بہہ رہی ہو تو ہر کوئی اپنی صوابدید کے مطابق اس میں ہاتھ دھونے بلکہ اشنان کرنے تک سے باز نہیں آتا ‘ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے ‘ اورکوئی بھی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی اور مشیروں کے خاندانوں پر نظر دوڑائیں تو ان کے عزیز رشتہ دار (مرد و خواتین) اس موروثیت کے مزے اڑا رہے ہیں اور صورتحال چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کے مصداق حالات کی تصویر واضح ہوتے نظر آرہے ہیں صورتحال کی وضاحت کرنے سے ہم اس قسم کے اقدامات کو جائز قرار دینے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ناجائز کو اگر کسی بھی خوبصورت شکل میں جائز کے لباس میں پیش کیا جائے تو اس کی ” کراہت” لباس کے اندر بہرطور موجود رہتی ہے یعنی
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
یہ وباء صرف ہم تک ہی محدو نہیں ‘ امریکہ میں کینیڈی خاندان ‘ بش خاندان تو نہایت واضح ہیں ‘ حالانکہ وہاں سیاست پر ہماری طرح کی موروثیت کی چھاپ نہیں بلکہ جو بھی ہوتا ہے اسے اپنی قابلیت منوانا پڑتی ہے تب عوام اس کو ووٹ دیتے ہیں گویا
اتنا آسان بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا
یہی حال دیگر مغربی ممالک کی بھی ہے جہاں کوئی بھی ہو اسے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اگر وہ کسی خاص خاندان سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی اپنی بھی کوئی حیثیت ہے یعنی اس کی ملک و قوم کے لئے اتنی خدمات ہیں کہ وہ عوامی نمائندگی کے لئے سامنے آیا ہے ‘ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی طرح نہیں جو عوام کو آج تک کالانعام کے درجے سے اوپر کی کوئی چیز سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں اور خود کو ہی حکمرانی کا حقدار قرار دیتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ”ہم تو حکمرانی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں” وما علینا الالبلاغ۔

مزید پڑھیں:  صحت کارڈ سے علاج میں وسعت