2 515

اسلامو فوبیا، کثیرا لثقافتی معاشرے کاشاخسانہ

انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسے معاشرے کا تجربہ کیا ہے جہاں مختلف مذاہب، قومیتوں، نسل اور نظریات کے لوگ اتنے بڑے پیمانے پر اکٹھے رہتے ہیں۔ ایسے کثیرالثقافتی معاشروں کی تخلیق نسل انسانی کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یہ مختلف قسم کے تعصبات پر انسانیت کی قابل فخر فتح ہے۔ یہ بڑا کام مغرب نے سرانجام دیا ہے اور اس کی وجہ ان کا سیکولرازم کا نظریہ ہے جو اپنے دامن میں ہر قسم کے نظریات، عقائد، عبادات اور اقدار کو سمو لیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ اس وقت ہی ممکن ہوا جب سیکولرازم کے پہلو بہ پہلو سائنسی علوم و ایجادات نے ترقی کی، جن کی بدولت لوگوں کو ہجرت کر کے دوسرے معاشروں میں جانے کی سہولیات میسر آئیں۔ سماجیات میں اس بڑے کارنامے کا وہی مقام ہے جو سائنسی ایجادات میں انٹرنیٹ کا ہے۔ جس طرح انٹرنیٹ نے تاریخ میں پہلی بار مختلف تہذیبوں، معاشروں اور اقوام کو آپس میں جوڑا ہے، کثیرالثقافتی معاشرے نے بھی یہی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جس طرح انٹرنیٹ کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے غلط استعمال کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، اسی طرح کثیرالثقافتی معاشرے کی تشکیل میں بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ان میں سفید فام نسل پرستی اور مذہبی انتہا پسندی بہت اہم ہیں۔ ان رکاوٹوں کے پیچھے وہ نظریات کارفرما ہیں جو اپنی اپنی تہذیب کو بطور ایک اکائی قیمتی اور بالاتر سمجھتے ہیں اور دیگر تہذیبوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کا نظریہ، پاکستان میں مذہبی شخصیات کے افکار، عرب دنیا میں اخوان المسلمون کے خیالات، مغربی معاشروں میں نسلی برتری کا نظریہ اور امریکہ کا تکبر۔ ان تمام نے مل کر اس آئیڈیل معاشرے کے قیام میں رکاوٹیں ڈالی ہیں جس کی طرف نسل انسانی جانا چاہتی ہے۔ یہ محدود سوچ کے نظریات ہیں جو نسل انسانی کو گروہوں میں منقسم رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس وقت زیادہ تر مسائل مسلم تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان کشاکش کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔ اسلاموفوبیا بھی اسی تہذیبی ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ اس کی تاریخی وجوہات ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔جب مغرب نے بالاتر مسلم تہذیب کو شکست دی تو مسلمانوں نے اس شکست کو تسلیم نہیں کیا اور مسلسل مزاحمت جاری رکھی جس کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں سے مغرب کو نکلنا پڑا۔ اس کے بعد بھی مختلف محاذوں پر یہ لڑائی جاری رہی۔ کبھی اس نے عرب نیشنل ازم کی صورت اختیار کی تو کبھی مسلمان ممالک کی تنظیموں کی صورت میں۔ البتہ افغان جہاد نے مغرب سے نفرت کرنے والوں کو ایک نیا رستہ دکھا دیا۔ یوں مغربی مفادات پر حملے شروع ہوئے جن کا نقطہ عروج نائن الیون تھا۔ شکست خوردہ تہذیب بار بار پلٹ کر حملہ آور ہوتی رہی جس کی وجہ سے مغرب میں خوف کا عنصر موجود رہا۔ آج کے دور میں جبکہ کیمیائی اور جوہری ہتھیار بن چکے ہیں، یہ خوف مزید گہرا ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک کے کئی سیاستدان اس خوف سے فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ پراپیگنڈہ کے ذریعے اس خوف کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں جس سے اسلاموفوبیا پھیلتا ہے۔
مغرب نے جس کثیرالثقافتی معاشرے کا خواب دیکھا اور اس پر عمل کیا، اس میں بھی انتہا پسند مسلمانوں کی صورت میں مزید جزیرے موجود ہیں جو خوف کو مٹنے نہیں دیتے۔ اپنی شناخت کو یکسر بھلا کر ایک کثیرالثقافتی معاشرے میں ضم ہونا جتنا تارکین وطن کے لیے مشکل ہے اتنا ہی مغرب کے باشندوں کے لیے دشوار ہے۔ یہ چنگاری سلگتی رہتی ہے اور اسلاموفوبیا کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارے اندر اب بھی وہ انسان جبلت کی شکل میں بیٹھا ہے جو غاروں میں رہتا تھا اور جس کی بقا کا انحصار اپنے گروہ یا قبیلے سے جڑ کر رہنے پر تھا۔ جن ممالک میں قانون کا نفاذ سخت ہے وہاں کثیرالثقافتی معاشرے تمام تر مسائل کے باوجود کامیابی سے چل رہے ہیں۔ قانون پر عمل داری کی وجہ سے مغربی باشندوں اور تارکین وطن کی جبلتیں دبی رہتی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک جاری رہا تو انسان اس کے عادی ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس جہاں قانون کے نفاذ میں کمزوری ہے، ان معاشروں میں گروہی نفسیات عروج پر رہتی ہے۔ان ممالک میں کثیرالثقافتی معاشرے کی ابتدائی سطح بھی حاصل نہیں ہوئی۔
کثیرالثقافتی معاشرہ نسل انسانی کی منزل ہونی چاہیئے۔ انسان اسی طرف ہی بڑھ رہا ہے لیکن چونکہ انسانی فطرت کے لیے یہ اجنبی تصور ہے اس وجہ سے مزاحمت کی لہریں بھی موجود ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ ایسا معاشرہ آخرکار نسل انسانی کو میسر آ جائے گا۔ یہ صرف سیکولرازم یا اس سے ملتے جلتے کسی نظریے کی بدولت ہی ممکن ہو سکے گا۔ البتہ سیکولرازم کو بھی ردعمل سے بچنا ہو گا۔ اگر یہ نظریہ مذہب دشمنی کی شکل اختیار کر گیا تو انسانوں کو تقسیم کرنے والے نظریات میں ایک نئے نظریے کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کا سختی سے نفاذ بھی کثیرالثقافتی معاشرے کا لازمی جزو ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ