4 398

بھارت کا ”ان ” سے حجابانہ رابطہ

جوں جوں افغانستان سے امریکہ کے حتمی کوچ کے لمحات قریب آرہے ہیں اور طالبان کی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے بھارت کل تک دہشت گرد اور انتہاپسند قرا ر دئیے جانے والے طالبان سے حجابوں میں رابطے استوار کر رہا ہے ۔ گوکہ بھارت اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں شرم وحیا اور جھجک سے کام لے رہا ہے اور کسی مشرقی دوشیزہ کی طرح منگیتر کا نام لینے سے شرما رہا ہے اور سیدھے سبھائو ”طالبان ” کہنے کی بجائے انہیں ،ان سے ،سب سے جیسی اصطلاحات کا سہارا لے رہا ہے مگر اس کے باوجود بھارت کی ”اُن ” سے روابط کی خبریں باہر آرہی ہیں۔بھارت کی طرف سے ”اُن ” سے رابطے کی تصدیق تو ہو رہی ہے مگر اُن کی طرف سے فقط یہ کہا گیا ہے کہ وہ سب سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔کچھ دن پہلے یہ خبر آئی تھی کہ بھارت نے اپنی افغان پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے طالبان کے مختلف گروہوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔جرمن ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے کے ممالک نے کابل پر طالبان کے ممکنہ کنٹرول کے پیش نظر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور بھارت کا طالبان سے رابطہ اسی کا نتیجہ ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں ہونے والی سیاسی اور عسکری تبدیلیوں کے ماحول میں بھارت تنہا رہ جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔یہی سوال جب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندباغچی سے پوچھا گیا تو انہوں نے براہ راست جواب دینے کی بجائے یہ کہہ کر گول مول انداز میں جواب دیا کہ افغانستان میں امن ،ترقی اور تعمیر نو کے لئے اپنے طویل المیعاد عہد کی تکمیل کے سلسلے میں اس ملک میں مختلف فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ہندوستان افغانستان کے تمام نسلی گروپوں کے ساتھ بات چیت کررہا ہے۔اس طرح بھارتی اہلکار نے طالبان سے براہ راست رابطے کا اقرار تو کیا مگر کسی دوشیزہ کی طرح شرماتے ہوئے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کوآنے والے حالات اور طالبان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ کل تک جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا اب انہی سے ہاتھ ملانے کے لئے حیلے بہانے تراش رہا ہے ۔بہت عرصہ پہلے ان روابط پر کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے یہ پھبتی کسی تھی کہ اگر بھارت طالبان سے بات چیت کر سکتا ہے تو کشمیریوں سے کیوں نہیں؟اس پھبتی کے بعد بھارت نے طالبان سے روابط میں احتیاط برتنا شروع کی تھی اور پوری قوت سے اشرف غنی حکومت کو قانونی جوازیت دلوانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔اشرف غنی کی حکومت حالات کے پانیوں پر تیرتی ہوئی کاغذ کی نائو تھی جسے بھارت کی کوششیں ایک حد تک ہی دوام بخش سکتی تھیں
۔اب حالات نے بھارت کو تنہا رہ جانے کی بجائے طالبان کی زمینی حقیقت کو قبول کرنے پر آمادہ کیا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے بھارت اور طالبان میں اچھے تعلقات قائم ہو سکتے ہیںاور اس عمل کوامریکہ کی حمایت ہونا لازمی ہے کیونکہ وہ چاہے گا کہ مستقبل کے افغان منظر نامے میں جس میں لامحالہ طالبان کا سیاسی غلبہ نظر آتا ہے بھارت کے بہتر تعلقات ہونا ضروری ہے۔ایک طرف امریکہ بھارت اور طالبان یا مستقبل کے افغانستان کے درمیان بہترین تعلقات چاہتا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں ایسے فوجی اڈوں کا متلاشی ہے جن سے افغانستان کے اندر ڈرون اور حملے میزائل حملے کئے جا سکیں ۔افغانستان کی آبادیوں پر طالبان ،داعش اور القاعدہ کے نام پر بمباری کی جا سکے۔لامحالہ اس کے جوابی ردعمل کا سامنا پاکستان کو کرنا پڑتا ۔اس طرح طالبان کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے اور پاکستان اجرتی قاتل قرار پاکر ان کے عتاب اور ناراضگی کا نشانہ بنتا ۔غالباََ امریکی یہی چاہتے ہیں کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا پاکستان کی سرزمین بھی یونہی سلگتی رہے ۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو امریکہ قبائلی علاقوں میں آپریشنوں کا آغاز کراتے ہوئے اختیار کر چکا ہے ۔پاکستان پر دبائو ڈال کر قبائلی علاقوں کی عسکریت کی بندوقوں کا رخ امریکی فورسز کی بجائے پاکستان کی طرف مڑ گیا تھا ۔ایک طرف خود دبائو ڈال کر آپریشن کا آغاز دوسری طرف این جی اوزکے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا رونا بھی رونے لگا ۔یہ دوہری حکمت عملی تھی جس میں امریکہ کا کوئی نقصان نہیں تھا کیونکہ اس تصادم کی زد پاکستان اور اس کی آبادیوں پر پڑتی تھی اور وہی اس پالیسی کا شکار ہو رہے تھے ۔اب یہی حکمت عملی فوجی اڈوں کے مطالبے میں بھی پنہاں تھی ۔پاکستان کی سرزمین سے اُڑ کر افغانستان پر بمباری کرنے والے جہاز تو اپنا مشن پورا کرکے واپس آتے مگر ردعمل کے لئے پاکستان ہی آسان ہدف رہتا اور یوں طالبان اور پاکستان کے درمیان ایک بڑی خلیج ہی پیدا نہ ہوتی بلکہ دشمنی اور مخاصمت کے جذبات بھی غالب آتے ۔ایک طرف یہ ماحول ہوتا تو دوسری طرف طالبان اور بھارت شیر وشکر ہورہے ہوتے ۔طالبان نے جس لب ولہجے میں پاکستان کو فوجی اڈے فراہم کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا اس میں طالبان کے تیور قطعی اچھے اور دوستانہ نہیں تھے ۔اچھا ہوا کہ پاکستان نے کسی نئے غیض وغضب سے بچنے کے لئے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کیا ۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات