1 529

دھول چہرے پہ تھی آئینہ صاف کرتارہا

یہ آئینہ بھی ایک عجیب وغریب چیز ہے۔ عجیب و غریب اسلئے کہ یہ ہماری عیب صرف اس وقت بیان کرتا ہے جب وہ خود گرد و غبار سے پاک و صاف ہو۔ یہ جو کچھ بیان کرتا ہے وہ سچ اور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ اسے کسی سے کوئی غرض نہیں۔ یہ کسی اونچ نیچ کا قائل نہیں۔ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا بشرطیکہ یہ صحیح سلامت ہو۔ اگر آئینہ سلامت ہو تو ایک ہی تصویر نظر اتی ہے، مگر جب ٹوٹ جائے تو ہر کرچی میں یہ تصویر تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس کا بڑا کمال یہ ہے کہ یہ عیب بیان کرنے میں مقام و منزلت کا ہر گز خیال نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ یہ عیب کو خود ہمارے سامنے بیان کرتا ہے نہ کہ دوسروں سے۔ یہ ہمیشہ سچا رہتا ہے۔ یہ کسی سے متاثر نہیں ہوتا صورت کوئی بھی ہو وہ اسے ہی دکھائے گا۔ جیسا جو ہے اسے ویسا ہی منعکس کرے گا۔ یہ جھوٹ نہیں بولتا۔ منافقت نہیں کرتا۔خوشامد نہیں کرتا۔ جانب داری سے کام نہیں لیتا۔ یہ ہمیں ہمارا ہی چہرہ دکھاتا ہے۔ اصلی چہرہ۔ لبادے اور نقاب سے آزاد ۔عکس آئینہ بڑے راز اور بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ ضمیر کی آواز کی پیکر ہے۔ جس طرح ہم اپنے چہرے کی صفائی کا بہت خیال رکھتے ہیں، بار بار آئینہ دیکھتے ہیں اسی طرح روزانہ کردار کے ائینے میں بھی اپنے آپ کو دیکھ لیں تو ہماری زندگی بھی صاف ستھری اور خوبصورت ہو جائے۔
موقع محل کے اعتبار سے ایک فرضی مگر دلچسپ کہانی پیش خدمت ہے۔
وہ ایک آئینہ بنانے والی فیکٹری کا مالک تھا۔ اپنے ہم عصروں سے آگے نکلنے کی دھن ہر وقت اس کے ذہن پر سوار رہتی تھی۔ ایک دن ایک زبردست پلان اس کے ذہن میں آیا اور متعلقہ ماہرین سے جب اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے بھی اس پلان کو خوب سراہا۔ پلان ہی اتنا شاندار تھا کہ وہ سب مل کر دن رات اسی کام جت گئے۔ انہیں سو فیصد یقین تھا کہ اس آئینہ کی ایجاد سے ہر طرف کمپنی کی شہرت کا ڈنکا بجے گا۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں اور بالآخر آئینہ جب تیار ہو کر سامنے آیا تو اسے دیکھ کر وہ خود دنگ رہ گئے۔ یہ ایک عجیب وغریب آئینہ تھا۔ یہ آئینہ ایک وسیع پیمانے پر فروخت ہوتا گیا کہ وہ خود حیران رہ گئے۔ اس آئینے کی نمایاں اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں انسان کا ذہن اس طرح آجاتا تھا کہ جس طرح بدن کا عکس آئینے میں دکھائی دیتا ہے۔ یعنی جو کچھ وہ سوچتا تھا اس کا عکس آئینے پر آجاتا تھا۔ بے شک یہ ایک کمال کا آئینہ تھا مگر ایک عجیب بات ہوگئی بہت جلد اس کی مارکیٹ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی پھر اور چند دن کے اندر ہی لوگوں نے یہ آئینے پھینک اور توڑ دئیے اور ان کی فروخت صفر تک پہنچ گئی۔ یہ صورت حال موجد کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث ہوئی۔ سب پریشان تھے کہ آخر یہ کیا ہوا۔
آخر اس آئینے میں ایسی کیا بات تھی کہ لوگ اسے پھینکنے پر مجبور ہوگئے؟
بات دراصل یہ ہے کہ لوگ حقیقت سے چڑتے ہیں۔ اپنے ذہن کا عکس دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ آئینہ ان کے سامنے تھا لیکن کوئی بھی اس سے رو بہ رو ہونے کے تیار نہیں تھا۔ کوئی بھی اس کے سامنے اپنی حقیقی صورت دیکھنا نہیں چاہتا تھا، اسلئے لوگوں نے آئینے پھینک دئیے، اس طرح یہ آئینے کچرے کے گودام کا حصہ بن گئے۔
کمپنی کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لئے وہ ایک دفعہ پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا جائے؟ بڑی سوچ و بچار کے بعد کمپنی والوں نے ایک اور طرز کا آئینہ ایجاد کیا۔
یہ ایک ایسا آئینہ تھا جس میں لوگ وہی کچھ دیکھ سکتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ یہ آئینہ دراصل ان کو وہ عکس دکھاتا تھا جو ان کا پسندیدہ تھا اور جو وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ آئینہ فروخت ہوتا گیا۔ اب ہر ایک شخص کے پاس فالتو آئینے بھی تھے کہ اگر پہلا ٹوٹ جائے تو دوسرا کام آسکے۔
کاش کسی کو آئینہ دکھانے سے پہلے ہم خود کو دیکھ لیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں لیکن ہم میں سے کوئی بھی اپنی اصلی چہرہ دیکھنا گوارا نہیں کرے گا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
عمر بھر یہی بھول کرتا رہا دھول چہرے پہ تھی آئینہ صاف کرتا رہا
بد قسمتی سے ہم پیمانے بناتے رہتے ہیں مگر دوسروں کے لئے۔ لیکن خود کو ماپنے کا وقت نہیں رکھتے۔ شاید حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ ہم آئینے بناتے ہیں۔ مگر ااس میں خود نہیں جھانکتے۔ ہم اس سے روبہ رو نہیں ہوتے، کبھی ہم اس کے سامنے تو ہو، اس میں اپنی صورت دیکھیں۔ ہم دوسروں سے توقعات رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے معیار پر پورا اتریں’ ہمارے تقاضوں کو پورا کریں لیکن ہم خود کسی کی خواہش پر پورا نہیں اترتے۔ ہر معاملے میں دوسروں کے لئے خاصا کڑا معیار مقرر کر رکھا ہے۔ شرافت اور نجابت کا جو معیار ہم نے دوسروں کے لئے بنا رکھا ہے، بذات خود ہم اس کے دسویں حصے پر بھی پورے نہیں اترتے۔ بقول شاعر:
اپنے آئینوں سے ڈر جائیں گے کچھ لوگ
ہاں کبھی کردار نظر آیا جو چہرے کی جگہ

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی