4 399

وفاقی بجٹ مالی سال2021-22

مشیر خزانہ شوکت ترین نے اگلے مالی سال کا بجٹ اسمبلی میں پیش کردیا ہے بجٹ کا حجم8487ارب روپے ہے جس میں مجموعی خسارہ 3990ارب روپے ہے وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ ترقی کا ہدف4.8فیصد رکھا گیا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ گزشتہ دو سال مشکل بجٹ دیا اب خوش حالی کا بجٹ ہے ۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا تیسرابجٹ ہے مگر ابھی تک حالات پر ” نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ” کا مصرعہ ہی صادق آتا ہے ۔ معاشی اعشاریے بہتر ہونے کی رپورٹس آرہی ہیں مگر تاحال اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچنا باقی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کے شدید دبائو اور رنگی برنگی فرمائشوں کے ماحول میں پیش کیا گیا ۔ پاکستان کو اس وقت کو معاشی عوارض لاحق ہیں ان کی تشخیص ماضی میں جھانکے بغیر ممکن نہیں کیونکہ مریض معیشت کی حالت یکایک نہیں ہوئی بلکہ ماضی کی پالیسیوں نے ملک کی معیشت کو وینٹی لیٹر تک پہنچایا تھا۔ماضی میں جھانکا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ملکی معیشت کی سانسیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اکھڑتی رہی ہیںاور یہی وجہ ہے کہ برسہا برس سے تجزیہ نگار پاکستان کو” ان گورن ایبل ” قرار دیتے رہے ۔کئی ایک تو اس سے بھی بڑھ کو ملک کو معاشی دیوالیہ پن کی طرف لڑھکتا دیکھ رہے تھے ۔قرض کے پیسوں سے عیاشیاں اور اللے تللے جاری رکھنا ایک رواج سا بن گیا ہے ۔منی لانڈرنگ ،کرپشن اور اسراف نے ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر پر لاکر چھوڑ دیا ہے ۔کسی بھی حکومت نے مالیاتی ڈسپلن نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ٹیکس ہدف کا حصول کبھی ممکن نہ ہو سکا ۔عوام میں رضاکارانہ ٹیکس دینے کا شعور پوری طرح بیدار ہی نہیں کیا جا سکا۔ٹیکس کی وصولی کا ایک ہی طریقہ کارگر رہا وہ اشیائے ضرورت مہنگا کرنا تھا ۔گویا یہاں عوام سے جگا ٹیکس وصول کرنا ہی واحد طریقہ رہا ہے ۔عمران خان مالی معاملات میں شفاف دامن اور اچھی ساکھ کے حامل تھے اور خیال تھا کہ اس پس منظر اور امیج کے حامل شخص کے آنے سے مجموعی ماحول اور نفسیات پر خود کار اندازمیں مثبت اثر پڑے گا مگر یہ توقع تین سال گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہو سکی ۔یوں لگتا ہے کہ عمران خان اپنے خوابوں میں تنہا تھے اور تنہائی کا یہ سفر جار رکھے ہوئے ہیں ۔معیشت سے متعلق ان کی اپنی ٹیم کے مدارالمہام اسدعمر بھی کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اپنی منتخب کردہ ٹیم بٹھا کر مسئلہ حل کر نے کی کوشش کی مگر حکومت ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ اسد عمر کے بعد حفیظ شیخ کو وزرات خزانہ کا قلمدان دیا گیا جو آئی ایم ایف کی پسند تھے مگر انہوںنے عام آدمی کی چیخیں نکال دیں اور عوام کی بجائے آئی ایم ایف کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئے ۔انہیں منظر سے ہٹانے کے لئے سینیٹ کے انتخابات میں سیٹ اپ کو اپ سیٹ میں بدلنا پڑا ۔حفیظ شیخ سینیٹ کا الیکشن سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں ہار گئے اور اسے عوام کا مہنگائی کے خلاف ردعمل قرار دیا گیا ۔اسد عمر کی طرح ایک بار پھر اپنے بندے کا تجربہ کیا گیا اور قلمدان حماد اظہر کو سونپا گیا مگر یہ بھی عارضی انتظام ثابت ہوا اور معیشت کی بحالی کے لئے ایک اور تجربہ ایک اور چہرے کے ذریعے کرنے کا فیصلہ ہوا۔شوکت ترین مشیر خزانہ کی حیثیت سے اس کام پر مامور ہوئے ۔ایک تجربہ کار اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے تجربات کے باعث شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت لہرا یااور کہا کہ آئی ایم ایف ہمارا گلہ اتنا نہ دبائے کہ سانس لینا دشوار ہوجائے ۔شوکت ترین کا طرز تکلم بتا رہا تھا کہ وہ کسی دبائو کا شکار ہوئے بغیر آئی ایم ایف سے معاملات طے کریں گے ۔یہ خیال کسی حد تک درست ثابت ہوا اور بجٹ ماضی کی طرح عوامی زندگی کے لئے انگزیزی محاورے” برتنوں کی دکان میں سانڈ ” کے مصداق ثابت نہیں ہوا۔عمران حکومت معیشت کی بنیادیں رکھ ہی رہی تھی کہ کورونا ایک نئے عالمی غارت گر کی صورت میں نمودار ہوا ۔یہ چڑیل دنیا بھر کی معیشتوں کی رگوں کا خون پیتی چلی جا رہی ہے ۔لاک ڈائون کے باعث کاروبار حیات بند ہونے اور کوروناتحفظ اور بچائو کے اضافی اخراجات کے باعث ملک کی جاں بہ لب معیشت مزید خستہ حال ہو کر رہ گئی۔کورونا کا خطرہ اب بھی موجود تھے اس وبا ء کے مقابلے میں کوئی منجمد اصول اور حکمت عملی اپنائی نہیں جا سکتی ۔فی الحال تو خوشی کی بات یہ ہے کہ اس بجٹ کے بعد دبے پائوں کوئی منی بجٹ نہ آئے مگراس کی ضمانت شوکت ترین کی تقریر میں موجود نہیں۔ماضی کی کچھ حکومتیں عوام کے ساتھ یہی کھیل کھیلتی رہی ہیں ۔نرم سا بجٹ پیش کرنے کے بعد خاموشی سے منی بجٹ پیش ہوتے رہتے تھے اور یوں عو ام کو اپنے ساتھ ہونے والی واردات کا احساس بھی نہیں ہونے پاتا تھا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس