5 417

گدھے کاجیون پر بھاؤ

ہ واقعہ سچا ہے کہ انگریز راج میں ایک گاؤں کا دور ہ انگریز بہا در ڈپٹی کمشنر نے کیا اس مو قع پر مراعات یا فتہ خان بہا در صاحبان حاضر تھے کہ ایک کتا بار بار ڈپٹی کمشنر بہا در کی مو ٹر کا ر کی جا نب لپکتا وہاں موجود ایک خان بہادر زمیندار ہر دفعہ کتے کو دھتکا رتے اور اس زور کا دھتکار تے تاکہ صاحب بہا در بھی متوجہ ہو جائیں اور دیکھ پائیں کہ سرکا ر کے وفادار کس طرح ان کا دھیا ن رکھتے ہیں کہ اس اثناء میں ایک دیسی افسر نے ان وفادار خان بہا در کو مطلع کیا کہ وہ بار بار کتے کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیا ر نہ کر یں کیو ں کہ وہ بھی ڈپٹی کمشنر صاحب کاپالتو کتا ہے ، جب ڈپٹی کمشنر واپس ہونے کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے تو دھتکارنے والے خان بہادر بڑ ے مہذبانہ انداز میں کتے سے مخاطب ہوئے اورکہا کتا صاحب گاڑی میں تشریف رکھئے ، گدھا محنتی اور وفادار جانور ہے لیکن بچپن ہی سے کانو ں میں گدھے کی عزت افزائی کی درگت سنائی دینا شروع ہو جا تی ہے ، اسکول میں ما سڑ صاحب ہر اس بچے کو جو کا م چور ، سست وکا ہل ہو تا اس کو گدھے کا خطا ب عطاکر دیتے اس سے بڑی گدھے صاحب کی توہین اورکیا ہو سکتی ہے’گدھا تو سب سے زیادہ محنتی جا نو ر ہے وہ صبح شام تک بلا تھکان کے بوجھ ڈھوتا رہتا ہے اس کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ ایک جگہ سے بوجھ لدواتا اور دوسری جگہ لے جا کر اسے ڈھا دیتا پھر انہی راستو ں سے چل کر بوجھ ڈھو نے والے مقام پر آکھڑا ہو تا یہ آٹھ دس کا غول ایک خرکا ر کی نگرانی میں فرائض منصبی انجا م دیتا ورنہ ایک اکیلا خرکا ر ان کا کیا بگاڑ سکتا ، تاہم گدھے کا اڑیل پن معاشرے میں بھی ایک بڑا روگ ہے ۔دوسری جانب انسانی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سارا دن گدھا بیچارا بوجھ اٹھااٹھا کر اپنے مالک کو کما کر دیتا ہے شام کو مالک اس کو گالیوں اور ڈنڈوں کی ما ر کے ساتھ طویلے میں باندھ جا تا ہے ، جبکہ گدھے کے خون پسینے سے حاصل کر دہ آمدنی سے خوداوراہل خانہ کو مزے مزے کے کھا نے کھلا تا اور عیش وعشرت کراتا پھربھی انسان جب اپنی ہی برادری کی بے توقیر ی کر تا تو وہ بھی اس کے نا م سے ۔ نا اہل ہو ، نکما ہو ، جا ہل جڈ ہو بے تہذیب ہو ، ان پڑھ ہو سو برائیوں سے بھرا ہو اس کو خطاب گدھے کے نا م کا ہی ملتا ہے ۔ ہا ں ان پڑھ سے یا د آیا کہ پڑھا لکھا گدھا دیکھنے میں تو نہیں آیا بلکہ پڑھنے میں ضرور آیا ہے اس کی سوانح عمر ی وکا رنامے برعظیم ہندمیں اردو کے صاحب طرز ، مزاح نگا ر ، انشاء پر داز ، کہا نی وافسانہ اور نا ول نگار کر شن چندرنے ایک گدھے کی سرگذشت کے نام سے قلم بند کیے ہیں ، جس گدھے کا ذکر کیا ہے وہ کوئی معمولی پڑھا لکھا نہ تھا بلکہ بڑے بڑے پڑھے لکھوں کا ہو ش ٹھکا نے لگا دیتا تھا ، وہ بھی کسی مکتب کا فارغ تحصیل نہ تھا بلکہ بقول اپنی سوانح عمر ی کے کہ اس کا مالک کسی صاحب بہا در کی کو ٹھی کی تعمیر و مر مت کے لیے ساما ن اس کی پیٹھ پر لاد کر لے جا تا اور پھر اس کو بنگلے کے لان میںچھوڑ دیتا جہاں صاحب انگریزی اخبار کا مطالعہ کر نے کے بعد امیر انہ مزاج کے مطابق اخبار لان میں ہی پھینک کر دیگر امو ر پر متوجہ ہو جا تے اور وہ لا ن کی گھا س کے ساتھ ساتھ اخبار بھی چٹ کر جاتا اس طرح اس کو انگریزی پڑھنا ازخود آگئی اب وہ ڈھینچوں ڈھینچوں بھی بزبان انگریزی کر نے لگا ، اس کی انگریز دانی جا ن کر وہاں سے شراب کے نشے دھت ایک راہ گزر نے دیکھا تو وہ سمجھا کہ اس میں اوتار کی روح اتر آئی ہے چنانچہ اس نے فوراًگدھے کے پاؤں اپنی بانہوں میں جکڑ کے للجائی زبان سے التجا شروع کر دی کہ اس کو سٹے کا نمبر بتادے اگر لگ گیا تو وہ تجھ گدھے کو بھی نہال کر دے گا ۔ گوہا دونوں کا جیو ن آنند ہو جائے گا جب گدھے صاحب نے دیکھا کہ اس مورکھ سے جا ن چھڑانی ممکن نہیں تو اس نے آؤل فاؤل بک دیا اسی آؤل فاؤل سے وہ نتیجہ اخذکر کے سٹہ کھیلنے چلا گیا اور اس کا داؤبھی لگ گیا پھر تو نشئیے کا معمول ہو گیا اور وہ اپنے مرشد کے لیے نذارنہ بصورت نقدی لا نے لگا دیکھتے یکھتے گدھا صاحب لکھ پتی ہو گیا ارب پتی اس لیے نہیں ہو ا کہ یہ قصہ چھ سات عشرے پرانا ہے تب لکھ پتی ہو ا کرتے تھے جو اب پدم پتی ہیں ، ایک روز وہ بینک پہنچا تاکہ رقم بینک میں رقم جمع کر اکے محفو ظ کرلی جائے جب بینک میں داخل ہوا تو بینک میں ایک ہلچل سی مچ گئی جب اس نے کاؤنٹر پر مدعا آمد کا اظہار کیا تو سب نے مذاق اڑا یا اور جھڑک کر بینک سے باہر کر دیا وہ ما یو س بینک سے چلا کہ تھو ڑی دیر بعد بینک کا ایک اہلکا ر دوڑتاآیا اور اس کے پاؤں پکڑ کر بینک لے جا نے لگا تو اس نے کہا کہ حضور یہ بینک تو آپ جیسی شخصیات کے لیے تو قائم ہوئے ہیں بھلا لاکھوںکا اکاؤنٹ ہا تھ سے کیسے جا نے دیا جاسکتا ہے جی اگر پاکستان میں ہما رے رپورٹر کی اطلا ع کے مطابق گدھوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے تو کیا پہلے سے موجو د گدھو ں کی وجہ سے جو خوش قسمتی قوم کو ملی ہوئی تھی کیا وہ مزید دوبلا ہو جائے گی یہ نصیب کی بات ہے کہ پاکستان سے بعد میں آزادی پا نے والا ترقی یا فتہ ملک چین میں گدھو ں کی کمی ہو گئی ہے وہ پاکستان سے گدھے بھیجنے کا خواہشمند ہے حکومت پا کستان کو چاہئے کہ وہ یہ درخواست قبول نہ کرے ورنہ گدھو ں کی وجہ سے جس تیزی سے ملک ترقی کی طرف گامزن ہے اس میں پسما ندہ رہ جائے گا ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!