4 400

خبروں کی دنیا

نیب نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات سندھ منتقل کرنے سے گواہوں پر دبائو کا خطرہ ہے ۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سابق صدر مملکت کی درخواست کی سماعت کے موقع پر نیب نے اپنے جواب میں ان خدشات کا اظہار کیا درست ہوسکتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ پنجاب ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں نیب کے جو مقدمات زیر سماعت ہیں یہ دوسرے صوبوں میں کیوں منتقل نہیں کئے جاتے ۔ کیا ان مقدمات میں ملوث لوگ با اثر نہیں یا نیب کے مقدمات پرچون فروشوں کے خلاف ہیں۔ پنجاب میں حال ہی میں دو فیصلے آئے مریم نواز اور ان کے شوہر کے حوالے سے کہ گرفتاری سے دس دن قبل تحریری طور پر آگاہ کرنا ہو گاجبکہ دو سال سے نیب کی تحویل میں موجود سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے بیٹے کی درخواست ضمانت پر حکم ہوا کہ متعلقہ عدالت میں سرنڈر کرو ‘ ایک ہی ملک کے دو صوبوں میں مختلف صورتحال سے مثبت تاثر نہیں بنا لوگ سوال کر رہے ہیں سندھ اور پنجاب کے قانونی بصارت ‘رویوں اور فیصلوں پر ان سوالات کا جواب کون دے گا ۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز ایک سوال اٹھایا۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ اگر سندھ میں ترقی نہیں ہوئی تو ہزاروں لوگ روزانہ ملک کے مختلف حصوں سے روزگار اور علاج کے لئے سندھ کیوں آتے ہیں؟ سوال تو اپنی جگہ درست ہے لیکن یہاں پورا سماج ذہنی طور پر سندھ کو مقبوضہ اورمفتوحہ علاقہ سمجھتا ہے اس لئے مراد علی شاہ کو سوال کرنے کا حق نہیں ہے اور نا ہی کوئلے سے پیدا کی گئی بجلی ” زبردستی” لئے جانے پر رائلٹی کا حق ہے ۔ چلیں گزشتہ روز سندھ کے بجٹ میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لئے 240 ارب روپے ‘ صحت کے لئے 172 ارب اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے 222 ارب روپے رکھے گئے امن و امان کے لئے 120 کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 229 ارب روپے ہوں گے ۔ سندھ کے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں بیس فیصد اور پنشن دس فیصد بڑھائی گئی ہے ۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان کو سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید اتنے پسند ہیں کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رکن تو ہیں ہی لیکن کسی بھی معاملے کی تحقیق کے لئے بھی وہ انہیں ہی پسند کرتے ہیں پہلے براڈ شیٹ والے معاملے میں تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ بنائے گئے اب غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی ریگولائزیشن کے کمیشن کے سربراہ بھی وہی ہوں گے۔ پاکستان میں سب سے بڑا پراپرٹی مافیا کون ہے میں اور آپ چاہتے ہوئے بھی اس کا نام نہیں لے سکتے۔ اب تو خیر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے والے قانون کی تکرار بھی موجود ہے جب نہیں تھی تو کون بات کرتا تھا۔ البتہ ایسے ہر سوال کے بعد ہر شخص ملک ریاض کا نام لے لیتا تھا بلکہ اب بھی انگلی اس کی طرف اٹھتی ہے ملک صاحب خوش قسمت آدمی ہیں کھاتے ہیں تو کھلاتے اور لگاتے بھی ہیں ان سے سبھی خوش ہیں اب یہ نہ پوچھ لیجئے گا کہ کون کون خوش ہے ۔ لیکن پراپرٹی مافیا میں ان سے بھی پانچ سات قدم آگے کے کردار موجود ہیں آپ کو یقین نہیں تو آئیں مل کر حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک قومی کمیشن بنایا جائے جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ کراچی کے لوگوں کی اراضی پر غیر قانونی قبضہ کرکے اس قبضے کو قانونی شکل دلوا کر کس نے ہائوسنگ سوسائٹی قائم کی اور کس ہائوسنگ سوسائٹی کے دو فیز برساتی نالوں کی گزرگاہ پر قائم کئے گئے جس کی وجہ سے معمولی سی بارش بھی اس ہائوسنگ سوسائٹی میں طوفان برپا کر دیتی ہے ۔ اب آپ کہیں گے نام کیوں نہیںلکھا؟
ارے کیسا سقم ہے کہ ان خبروں کے چکر میں قومی اسمبلی میں منگل کو لگنے والے رونق میلے کو تو ہم بھول ہی گئے یقین کیجئے میں لوگوں کی اس بات سے قطعی متفق نہیں کہ منگل کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس پر ”ہمارے” سر شرم سے جھک گئے ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا سر موجود ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ شرم ہوتی کیا ہے ؟ بازار میں کس بھائو اور کیسے ملتی ہے ۔ یعنی لیٹر کی شکل میں کلو کی صورت میں؟۔ معاف کیجئے گا ایسا کچھ نہیں ہوا یہ ذرائع ابلاغ والے ایک پڑھی لکھی محب وطن نسل کے پیچھے ایسے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ تو ایوان کا ٹھنڈا یخ ماحول ‘بے فکری اور کاغذوں کا ڈھیر دیکھ کر کچھ بچوں کو اپنا ماضی یعنی بچپن یاد آگیا۔ من مچلنے لگا کاغذوں کی کشتیاں بنانے چلانے کے لئے پھر کسی نے مشورہ دیا کشتیاں نہیں جہاز اور راکٹ اڑائے جائیں وہ تو بس غلطی سے جنگی جہاز اور راکٹ بن گئے اب جنگی جہازوں اور راکٹوں کا کام کیا ہوتا ہے یہی جو ہوا۔ باقی سب خیریت ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی