3 419

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ابھی تک اس دعوے کا کوئی ثبوت تو سامنے نہیں آیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں موبائل فون ایجاد ہوچکاتھااور انہوں نے اپنے نافرمان بیٹے سے طوفان نوح کے آنے سے پہلے رابطہ کرکے اپنے بیٹے کو توبہ کرنے اور اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی ‘ جبکہ مومن خان مومن کے دور کے حوالے سے بھی ایسی کسی ایجاد کی ا طلاع ہم تک نہیں پہنچی تو یہ جو ا نہوں نے فرمایا تھا کہ
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
اس بارے میں سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر ضرور پہنچے ہیں کہ ممکن ہے مومن کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیش آئی ہو جیسی ان دنوں ہمیں درپیش ہیں ‘ اس حوالے سے بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس کا پس منظر جان لیں تو بات سمجھ میں آسانی سے آجائے گی ہمارے بعض کرم فرمائوں کو اب بھی یہ شوق ہے کہ لوگ انہیں فیس بک پر خوب خوب فالو کریں اور ان کے فرینڈز لسٹ کے ہندسے کا گراف اوپر ہی اٹھتا رہے ‘ جبکہ بعض دوستوں کو فیس بک فالورز سے یہ گلہ رہتا ہے کہ وہ ان کے اکائونٹ پر کمینٹ کرنا تو کیا لائیکس بھی نہیں دیتے اس لئے ہر دو چار ماہ بعد وہ پہلے ہی سے ”خبردار خطرہ 440 وولٹ” کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے ان کے اکائونٹ پر جنہوں نے مکمل خاموشی ا ختیار کرتے ہوئے لاتعلقی کی بکل اوڑھ رکھی ہوتی ہے ‘ ان فرینڈ کر دیتے ہیں ‘ گویا مومن خان مومن کے محولہ بالا شعر کے مصرع ثانی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ساتھ معاملہ بالکل الٹ ہے یعنی ہم شعر کے پہلے مصرع کو اہمیت دیتے ہوئے پشیمانی کا اظہار کئے بنا نہیں رہ سکتے ‘ اس وقت بھی ہمارے فیس بک اکائونٹ پر ہم سے ”دوستی”کرنے والوں کی فہرست سینچری کا ہندسہ پار کر چکی ہے اور 137 افراد ایسے خواہشمندوں کی ہے جو ہماری فرینڈ لسٹ میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر بات وہی ہے یعنی ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس ‘ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے گنتی کے چند مخصوص دوستوں کرم فرمائوں کے علاوہ اور کسی سے نہ تو گفتگو کرنے کے لئے وقت نکال سکتے ہیں ‘ نہ ہی ان کے استفسارات کا جواب دینے کا ہمارے پاس موقع ہوتا ہے ‘ اور اس کے باوجود کہ ہم نے اپنے فیس بک ٹائم لائن پر بارہا یہ گزارش کر رکھی ہے کہ ازراہ کرم ہمیں میسنجر پراستفساراتی پیغامات بھیجیں نہ ہی اپنا قیمتی اور ہمارا”بے وقعت” وقت ضائع کریں ‘ ہم کوئی جواب نہیں دیں گے ‘ مگر کہاں صاحب ‘ ہم بیٹھے ضروری کام کر رہے ہوتے ہیں ‘ کالم لکھنے میں مصروف ہوتے ہیں ‘ یا پھر ضروری مطالعہ کرتے ہیں کہ لکھنے کے لئے مسلسل مطالعہ لازمی ہے ‘ اسی سے نئے نئے خیالات جنم لیتے ہیں ‘ نئے مضوعات سوجھتے ہیں ‘ جبکہ اس دوران میں ہمارے میسنجر کی گھنٹی ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرا کے ہمارے خیالات منتشر کر دیتی ہے ‘ کھول کر دیکھتے ہیں تو ہوتا کیا ہے؟۔۔۔ہائے۔۔۔ ہائو آر یو۔۔۔۔ جواب تو دیں نا۔۔۔ سر کیا ہم سے ناراض ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ‘ حالانکہ ہم بارہا گزارش کر چکے ہیں کہ حضور ہم ماسوائے چند مخصوص دوستوں کے ‘ اور کسی سے چیٹنگ نہیں کرتے ‘ لیکن پھر بھی ہماری مجبوری کا کوئی خیال نہیں کرتا ‘ اور مزے کی بات یہ ہے کہ دن میں کئی بار ہم اپنا رابطہ انٹرنیٹ سے منقطع کر لیتے ہیں کہ ضروری کام نمٹانے میں آسانی ہو ‘ مگر کیا دن اور کیا رات ‘ جب بھی ضرورت کے تحت نیٹ کھولتے ہیں تو ان ستم ظریف ”فرینڈز” کے رابطے شروع ہو جاتے ہیں ‘ ایسا لگتا ہے جیسے یہ لوگ نہ دن کو آرام کرتے ہیں نہ رات کو انہیں چین آتا ہے اور گویا یہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ہم نیٹ پر آتے ہیں اور یہ ہمیں اپنی ”محبتوں”سے نوازنا شروع کردیں’ ایک آدھ ایسے بھی ہیں جو اپنے ہتھکنڈوں میں ناکام ہوئے تو ”نامناسب” قسم کی تصویری پوسٹیں ارسال کرنا شروع کر دیں ‘ ہم نے انہیں بلاک کرکے جان چھڑالی ‘ ایسے لوگوں کے رویئے پر ماسوائے افسوس کے اور کیا کہا جا سکا ہے ۔ اب ایسے لوگوں سے اور کیا کہیں کہ حضور آپ ا پنا پاندان اٹھا لیجئے ہمیں کوئی شوق نہیں ہے ‘ یعنی جس قسم کے ”پیغامات” ہمیں ارسال کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں میر تقی میر نے کیا خوب کہا تھا کہ
جن بلائوں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روز گار میں دیکھا
یہی کارن ہے کہ ویٹنگ لسٹ پر 137کا ہندسہ جگمگانے کے باوجود گزشتہ دو تین ہفتوں سے ہم فرینڈز ریکویسٹ پر کلک کرنے سے گھبرا رہے ہیں کہ یہ تو”آبیل مجھے مار” والی صورتحال ہو گی یعنی
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات