5 419

اچھے دن آرہے ہیں

بالآخر اپوزیشن جماعتوں اور معیشت دانوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے خدشات اور مختلف قیاس آرائیوں کے بعد سال 2021-22 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جس نے نا صرف معیشت دانوں کو حیران کیا بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی دبے لفظوں میں اس کی تعریف کی۔ کچھ سیاست دانوں نے کہا کہ یہ بجٹ حکومت کی جانب سے الیکشن تیاری کے لئے پیش کیا گیا ہے اور کچھ نے تو اس کی کھل کر تعریف کی۔ لیکن سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ آیا یہ بجٹ واقعی حکومت کی جانب سے الیکشن کی تیاری کے لئے عوام کو خوش کرنے کا ایک سیاسی اسٹنٹ ہے یا واقعی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہورہا ہے ؟حکومت کی جانب سے جب خزانہ کی وزرات کی ذمے داری شوکت ترین کو سونپنے کی بات کی گئی تو تب پی ٹی آئی کے اپنے حلقوں کی جانب سے ہی ان کی تعیناتی کو عمران خان کی جانب سے ایک بڑا بلنڈر تصور کیا جانے لگا۔ لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہ تھا کہ یہی شوکت ترین پاکستان کی معیشت کے لئے جی ڈی پی میں 4 فیصد گروتھ کی صورت میں خوشی کی نوید لیکر آئیں گے جس کا واضح ثبوت بجٹ میں سات سو ارب روپے کا اضافہ ہے جو سال 2020ء کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ ہے۔ اس اضافے نے ان سوالات کے جوابات بھی تلاش کردیئے جو اپوزیشن کی طرف سے شوکت ترین کی جانب سے جاری کئے گئے پاکستان اکنامک سروے پر اٹھائے جارہے تھے۔سال 2021 کے بجٹ کی تقسیم کے حوالے سے بات کی جائے تو اس مرتبہ اس میں بھی پچھلے سال کے مقابلے میں کافی بڑی تبدیلی دکھائی دی گئی۔ کرنٹ ایکسپنڈیچر کے لئے اس سال 7522 ارب روپے مختض کیئے گئے جو2020 کے مقابلے میں1200 ارب روپے زیادہ ہیں۔ حکومت نے دفاعی اخراجات میں نہایت ہی معمولی سا اضافہ کرکے ان لوگوں کو بھی حیران کردیا جو ان پر سیلیکٹد ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ اگرچہ ہوا تو دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ ہی ہے لیکن اگر ہم اس کا کل بجٹ سے موازنہ کریں تو یہ 17فیصد بنتا ہے جو پچھلے سال 18فیصد تھا۔ اس کے علاوہ حکومت نے اس مرتبہ پی ایس ڈی پی یعنی وفاقی ترقیاتی کاموں کے لئے 900ارب روپے کا اضافہ کرکے اس جانب بھی اشارہ دے دیا کہ اس سال ترقیاتی کاموں کی سرگرمیاں نمایاں دکھائی دینگی جو پچھلے سال صرف 500 ارپ روپے تھی اور اس میں بھی 50 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی تھی جو واضح بتارہا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات اب تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہورہے ہیں۔جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی جی ڈی پی گروتھ منفی میں جارہی تھی وہیں پاکستان کی معیشت نے پستی کے بجائے بلندی کی جانب سفر کیا۔ ہمسایہ ملک بھارت کی ہی مثال لی جائے تو اسکی جی ڈی پی منفی 7فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ بھارتی حکومت نے ملک کے حالات کو بنا سوچے سمجھے ملک بھر میں لاک ڈائون نافذ کیا جبکہ اس کے برعکس پاکستانی حکومت نے مزدور طبقے اور ملکی معیشت کا حال دیکھتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے کہ وبا کے پھیلائو کو بھی روکا گیا اور مزدور طبقے کے روزگار پر بھی اثر نا ہوا۔ اسی اسمارٹ لاک ڈائون کا نتیجہ یہ نکلا کہ باہر سے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کام کرنے کا حوصلہ ملا جو پاکستان کی معیشت کے لئے خوش آئند ثابت ہوا۔اس بجٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں تنخواہ دار طبقے اور کسانوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا بلکہ ان کے لئے مزید سہولتیں فراہم کی گئی ہیں اور اسی تناظر میں حکومت نے کئی ارب روپے احساس پروگراموں کے لئے مختض کئے ہیں جبکہ کسانوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کے لئے انہیں بلاسود قرضے مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ناقدین کا یہ بھی الزام ہے کہ شاید حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اگلا سال الیکشن کا ہے جس کے لئے ابھی سے ہی تیاری کی جارہی ہے لیکن اگر اس کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو تو اس سال واضح طور پر بجٹ میں سات سو ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور اتنا بڑا اضافہ حکومت خود سے مصنوعی طریقے سے کرنے کی اہل نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم دو سال قبل اپنی تقریروں میں یہ بارہا کہہ چکے تھے کہ عوام کو صرف دوسال مزید تکلیف برداشت کرنی ہوگی۔ پھر اس کے بعد حالات بہتری کی جانب جائیں گے۔اس کے علاوہ ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ کرونا وبا کے باوجود پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات کے وجوہات میں جیو پالیٹکس نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان میں امن کے قیام کی جانب اقدامات اور اس میں پاکستان کے کردار سمیت حکومت کا مکمل لاک ڈائون نا لگاکر اور نئی حکمت عملی اپناکر کرونا وائرس پر قابو پانے جیسے اقدامات نے سرمایہ کاروں کے حوصلے بلند کئے۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا وبا نے دنیا بھر میں تباہ کاریاں کی لیکن اس کے باوجود پاکستان میں معیشت پستی کے بجائے مثبت سمت کی طرف گامزن ہوئی جو ملک میں اچھے دن آنے کی نوید ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟