syed fakhar kaka khel 2

بجٹ ترجیحات اور نوٹ پر اسلامیہ کالج کی تصویر

صوبہ خیبر پختونخوا کاایک ہزار ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش ہوچکاہے۔موجودہ صوبائی حکومت کے قیام کو آٹھ برس بیت گئے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی سیاسی جماعت نے پختونخوا میں اتنی دیر حکومت کی ہے۔ لیکن آٹھ برس بعد بھی ایسے لگتا ہے کہ ان کو تیسری مرتبہ حکومت لینے کی آرزو ہو گی یہ کہہ کر کہ ابھی تو انہوں نے بہت سارا کام کرنا ہے۔ پہلے پانچ سال تو میڈیا پر احتساب، مرکزی حکومت کے خلاف دھرنے اور بی آر ٹی کی نذر ہو گئے۔ اس برس البتہ وزیر اعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں اندرونی غلط فہمیوں اور خلفشار پر قابو پاتے پاتے کچھ کچھ حرکت نظر آنے لگی ہے۔انسان اور ریاستیں غلطیوں سے سیکھتی ہیں لیکن موجودہ حکومت اگر پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو دوسری بار دیکھنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے لگ بھگ ہر شعبہ میں فنڈز کے مسائل درپیش رہے۔ یہاں تک کہ صوبے کے قدیم اور معتبر تعلیمی ادارہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی چندہ مانگنے پر مجبور ہوا۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے لئے بابائے قوم محمد علی جناح نے اپنی ایک تہائی وراثت وقف کر دی تھی’ یہ وہ ادارہ ہے جہاں سے نہ جانے کتنے سول ملٹری بیورو کریٹ، عدلیہ اور سیاست و کاروباری شخصیات فارع التحصیل ہوئے۔ اسی اسلامیہ کالج کی اپنی ساری املاک بھی کسی کام نہیں آئی۔ کسی زمانے میں صوبے کے ہر طالبعلم کا سپنا ہوتا تھا کہ وہ اسلامیہ کالج کی عمارت کو ایک دن اندر سے دیکھے گا، اس میں پڑھے گا۔اس برس بجٹ تقریر کی دستاویز میں بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص بجٹ کے صفحہ پر اسلامیہ کالج کی عمارت کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ لیکن اسی آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا جب اس مادر علمی کے بچوں نے چندے کے لئے مظاہرے کئے۔ میں نے دریافت کیا کہ آخر کو کتنی رقم درکار ہوگی تو بتایا گیا کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے ساٹھ ستر کروڑ کے لگ بھگ رقم چاہئے۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سامنے سے گزرتی بی آر ٹی پر نظر پڑی تو یاد آیا کہ اس پر اب تک ستر ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں اور ابھی مزید خرچ ہونے ہیں۔ کہاں ستر ارب اور کہاں ستر کروڑ ۔۔۔ویسے ایک ارب میں سو کروڑ ہوتے ہیں۔مطلب سات ہزار کروڑ روپے بی آر ٹی کا خرچہ سرکار بتا رہی ہے۔بے اختیار پرویز خٹک صاحب یاد آئے۔ خٹک صاحب، یہ آپ نے کیا کر دیا ہے؟ لیکن اس کا بھی قصور نہیں اسی اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ہزاروں طلبا اور اساتذہ نے اس وقت شاید اسی بی آر ٹی منصوبے کے دفاع میں پتا نہیں کتنی لڑائیاں لڑی ہوں۔ اب سالوں تک اس منصوبے کا بوجھ اس صوبے کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ صرف یہ ادارہ نہیں بلکہ صوبے کے باقی جامعات بھی شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ صحت کا شعبہ دیکھیں تو پہلے سے قائم ہسپتالوں کی اپ گرڈیشن کے علاوہ کیٹگری اے ہسپتالوں میں نوشہرہ کا قاضی حسین احمد ہسپتال ہی بنا ہے۔غالباً اس کی وجہ بھی پی ٹی آئی کے پہلے دو سالوں میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی اپنے علاقہ نوشہرہ میں دلچسپی ہی تھی(یہاں دلچسپی کو نوکریوں کی فراہمی کے تناظر میں دیکھا جائے)اس ہسپتال کی منظوری ایم ایم اے دور میں ہوئی، اس پر کام کا آغاز پیپلزپارٹی کے دور میں ہوا اور تکمیل پی ٹی آئی کے دور میں ہوئی۔اب تو خیر ہسپتال بھی سرکار کے خرچے پر پرائیویٹ چل رہے ہیں۔کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ہسپتالوں میں یہ نظام تو ہسپتالوں کو معاشی خودمختاری کے لئے دیا گیا تھا ۔ اب سرکاری خرچہ پر ڈاکٹرز اور کنسلٹنٹس کا ایک محدود طبقہ اپنی آزادی کے مزے لوٹ رہا ہے ۔اس کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے سینئر ترین ڈاکٹرزنے ہسپتال چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔محترم وزیر اعلیٰ صاحب سیکرٹری ہیلتھ اور سیکرٹری فنانس کو بلا کر ایک سوال پوچھ لیں کہ کیا صوبے کے تمام ہسپتال اپنے خرچے پر چل رہے ہیں؟ یاد رکھیں یہ صحت کارڈ بھی بین الاقوامی امداد اور انشورنس کمپنیوں کا شاخسانہ ہے۔ اس میں کرپشن اور اس کا بوجھ جب مستقبل میں عوام پر پڑے گا تو وہ بی آر ٹی کو بھول جائیں گے۔صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ہم جس زوال کی طرف گامزن ہیں اس کا بنیادی تعلق ترجیحات سے ہے۔ آٹھ سال گزر گئے لیکن ترجیحات کا یہ حال رہا تو یہ آخری دو سال بھی ایسے ہی گزر جائیں گے۔ ایک سو دس سال سے قائم اسلامیہ کالج اب تنخواہوں کی ادائیگی کے قابل نہیں رہا۔جون کا مہینہ ہے بجٹ بجٹ کا کھیل جاری ہے۔ اسلامیہ کالج کی انتظامیہ اس بات سے پریشان کہ اگلے مہینے کیا ہوگا؟ کیا کچھ ہی سالوں میں اس درسگاہ کو تالے پڑ جائیں گے؟ ہم نے ہزار کے کرنسی نوٹ پر قائد اعظم اور اسلامیہ کالج کی تصویر تو لگا دی ہے لیکن وہی کرنسی قائد کی وارث اس درسگاہ کے لیئے میسر نہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب، بجٹ سے فارغ ہوں تو جس طرح جیل کا دورہ کیا اسی طرح ایک دفعہ اسلامیہ کالج کا چکر بھی لگا لیں۔ کچھ وقت اس کی عمارت میں گزاریں شاید آپ کو احساس ہو کہ آپ کی سربراہی میں ترجیحات کیا ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟