taslemm norani

خوراک کی کمی

یہ بہت سنجیدہ بات ہے کہ پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں6.12 بلین ڈالرکی اشیائے خوردونوش درآمد کیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 54فیصد زیادہ ہے، اس میں ایک بلین ڈالر کی گندم، 2بلین ڈالر کا پام آئل،0.5بلین ڈالر کی دالیں، چائے اور دودھ کی مصنوعات او ر چینی کی 127 ملین ڈالر کی چینی کی درآمد شامل ہے،اگر اس میںآخری سہ ماہی2بلین ڈالر کی کاٹن بھی شامل کی جائے (اگرچہ ہم نو ماہ میں 1.5 بلین ڈالر کی کاٹن درآمد کر چکے ہیں ) تو اس حساب سے ہم 9.5 بلین ڈالر کی زرعی مصنوعات کی درآمدات کر چکے ہیں جو کہ سوچنے کا مقام ہے، برآمدی صنعتوں کو اربوں روپے کی مراعات کے باوجودہم مشکل سے 24 ارب ڈالر کی برآمدات کر سکے۔ ایک ایسا ملک جس کی70فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے زرعی اشیاء کی درآمدات کوئی نیک شگون نہیں، کیا یہ حیران کن نہیں کہ ہم زرعی پیداوار کی برآمدات سے جو کماتے ہیں اس کا تقریبا40 فیصد ہم زرعی مصنوعات کی درآمدات پر خرچ کر دیتے ہیں اس کو کسی طرح بھی ہماری طاقت قرار نہیں دیا جا سکتا ، زراعت کے حوالے سے قائم کردہ وفاقی کمیٹی کے مطابق رواں سال28.75 ٹن گندم کی بمپر فصل (جو کہ مقرر کردہ ٹارگٹ سے 2ملین ٹن زیادہ ہے)ہمیں اب بھی اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے مذید 1ملین ٹن گندم درآمد کرنا ہو گی، اگر اس میں پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین کے لئے1.5ملین ٹن کی گندم کی ضرورت کو اور افغانستان سمگل ہونے والی 3لاکھ ٹن گندم کے اعدادو شمار کو بھی شامل کر لیا جائے تو گندم کے مذید ذخائر کی ضرورت ہو گی، ایک رپورٹ کے مطابق ایک ارب ڈالر کی مذید4ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے کیا اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے؟ گو کہ ہمارے پاس قومی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، ہر صوبے میں محکمہ زراعت اور آبپاشی کے محکموں کے علاوہ صوبائی محکمہ خوراک اس سے متعلقہ تحقیقاتی ادارے اور زرعی ترقیاتی بینک جیسے ادارے بھی موجود ہیں اس کے باوجود ہمیں اپنی زرعی پیداوار کی40 فیصد آمدنی خوراک اور زرعی مصنوعات کی درآمد پر خرچ کرنا پڑتی ہے،اس کی ایک اہم وجہ ماضی اور موجودہ حکومت کا زرعی شعبے پر(ماسوائے زبانی جمع خرچ کے) انفراسٹرکچر منصوبوں کو فوقیت دینا ہے۔
میں نے ایک رکن اسمبلی کی تقریر سنی جس میں انہوں نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب حکومت بہاولپور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ملتان کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو بند کردیا گیا ہے اور کاٹن اینڈ ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ کراچی کابڑا رقبہ امریکی سفارتخانے کے حوالے کردی گیا ، یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ ہم زراعت کے شعبہ کو کس قدرا ہمیت دے رہے ہیں، زراعت کے شعبے کو ہر سطح پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، بجائے اس کے کہ ہم اس طرح کے زرعی تحقیقی اداروں کو فوقیت دیتے ،زرعی شعبے سے متعلقہ ہر معاملے کو پرائیویٹ شعبے کے سپرد کیا جا رہاہے جس کا نتیجہ زرعی درآمدات میں اضافہ ہے،گندم جو کہ ہر شخص کی خوراک کا بنیادی جزو ہے، کی فراوانی کا انتظام کرنا صوبائی محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہے، گندم کی سپورٹ پرائس مقرر کرنا، فلور ملز کو اسٹاک کی فراہمی،ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے صوبائی اضلاع میں اقدامات اٹھانا اورگندم کی ممکنہ قلت کی صورت میں اقدامات اٹھانا صوبائی محکمہ خوراک کی ذمہ داریوں میں شامل ہے
گو کہ کچھ سال قبل آبپاشی کی اسکیمیں متعارف کروائی گئیں لیکن اس پر عمل درآمد تو درکنار صرف پائلٹ پراجیکٹ ہی بنائے جا سکے ، نہری اور کھالوں کے نظام سے ضائع ہونے والا50 فیصد پانی بچایا جا سکتا ہے لیکن آبپاشی کے ان ذرائع پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جا رہی،آبادی میں اضافے کو روکنے یا ہر شخص کی خواراک کی ضروریات پوری کرنا، کسی ایک جانب توجہ دینا ہو گی،بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے 50سال قبل بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات اٹھائے جس باعث آج بنگلہ دیش3کروڑ 70 لاکھ کی آبادی میں اضافہ روکنے میں کامیاب رہا۔
زراعت سے متعلقہ مختلف وزارتیں ، محکمے، کارپوریشنز زراعت کی پیداوار کے اضافے میں حائل رکاوٹوں کے ذمہ دار ہیں،زرعی شعبے کی مشکلات دور کرنے اور پیداوار بڑھانے کے لئے ہمیں زرعی شعبے سے منسلک وزارتوں، بہت سارے اداروں کی، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر( جس نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران بہترین کام کیا ہے)کی طرح ایک سپروائزری باڈی ترتیب دینا ہو گی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب خوراک اور زراعت کی پیداوار کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے گا۔
(بشکریہ ڈان نیوز، ترجمہ: واجد اقبال)

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں