logo 85

خیبر پختونخوا بجٹ ‘ دعوے اور خدشات

جس طرح قبل ازیں کی ہر حکومت مثالی بجٹ ہی پیش کرتی آئی ہے خیبر پختونخوا کے نئے مالی سال کے میزانیہ میں بھی اسی پرزور دیا گیا ہے کہ 2021-22 کا بجٹ متوازن عوام دوست اور تاریخی بجٹ ہے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان پر عزم ہیں کہ اس بجٹ پر عملدرآمد سے صوبے میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ٹیکس فری بجٹ ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ، کئی ایک ٹیکسوں کو ختم کردیا گیا ہے ، متعدد ٹیکسوں میں اصلاحات کی گئی ہیں اور مختلف شعبوں میں تاریخی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا ہے کہ مشکل مالی صورتحال کے باوجود ترقیاتی منصوبو ں پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا ، بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے370ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جو مجموعی بجٹ کا33فیصد بنتا ہے، وسیع تر عوامی مفاد کے جاری ترقیاتی منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے تاکہ ان کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے اور عوام بلاتاخیر ان کے ثمرات سے مستفید ہو سکیںاور اس مقصد کیلئے ترقیاتی بجٹ کا80فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے دوسری جانب خیبرپختونخوامیں اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ سے متعلق اعدادوشمارکومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت پہلے رواں مالی سال کے بجٹ کے واضح اعدادوشماربتائے اس کے بعد اگلے مالی سال کے بجٹ کی جانچ پڑتال ہوگی۔ان کا بجا طور پر اعتراض ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت وفاقی حکومت سے پن بجلی کے خالص منافع اوربقایاجات کے حصول میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے رواں مالی سال کے بجٹ میں58ارب روپے میں سے صرف19ارب کی وصولی ہوئی ہے، خیبرپختونخواحکومت نے وفاق کے ساتھ صوبے کے حقوق کیلئے دوٹوک موقف نہ اپناکر صوبائی محاصل کو زک پہنچائی ہے خیبرپختونخواحکومت کے بجٹ میں نئے ترقیاتی منصوبوں کواس لئے شامل کیاگیاہے کہ2023 کے انتخابات میں عوام کو دکھایاجاسکے کہ نئے منصوبوں کاآغازکیاگیاہے لیکن بیشترنئے منصوبوں کیلئے صرف ٹوکن منی مختص کی گئی ہے۔بجٹ کے اعدادوشمارحقیقت پرمبنی نہیں ۔سیاسی بنیادوں پربجٹ میں ترقیاتی کاموں کو تقسیم کیاگیاہے خیبرپختونخوامیں آمدن کے ذرائع بڑھانے کی بجائے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیاگیاہے جس سے عوام کی آمدنی مزید متاثرہوگی۔ تین سال گزرگئے پن بجلی کے منافع اوربقایاجات کے حصول کوممکن نہیں بنایاجاسکا۔اس وقت خیبرپختونخوا کو تیل وگیس کی ایکسائزڈیوٹی کی مد میں بھی ادائیگی کے لئے وفاق سنجیدہ نہیں ہے۔ وفاقی حکومت نے صوبے کو رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی ترقیاتی کاموں سے محروم رکھا۔ہر بجٹ کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کے اپنے نقطہ نظر ہوتے ہیں دونوں نقطہ ہائے نظر میں حقیقت پسندی کی بجائے مبالغہ آرائی سے کام لینا معمول کی بات ہے ایسا تو ممکن نہیں کہ کوئی حکومت اس طرح کا بجٹ پیش کرے کہ سرے سے عوام کا خیال ہی نہ رکھا گیا ہو اور نہ ہی حکومت کا یہ دعویٰ درست نکلتا ہے کہ بجٹ میں انہوں نے عوام کا ہر طرح سے خیال رکھا کیونکہ بجٹ پر عملی طور پر عملدرآمد کے بعدہی حقیقی صورتحال سامنے آتی ہے جسے ہر حکومت الفاظ کی شعبدہ بازیوں سے چھپانے کی کوشش کرتی رہتی ہے حزب اختلاف کی تنقید بھی حقیقی نہیں سیاسی ہوتی ہے البتہ ان کے اعتراضات بہرحال پوری طرح غلط نہیں ہوتے ۔ حزب اختلاف جو نکات اٹھاتی ہے ان نکات کی حقیقت بہرحال سامنے آتی ہے حکومتی دعوئوں اور وعدوں اور حزب اختلاف کے مخالفانہ عوامل کااگرجائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں اگر اختتام پذیر مالی سال کا اعداد و شمارپر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو مسلسل تیسرے برس بھی پن بجلی خالص منافع تخمینہ کے مطابق نہ ملا اور وفاق نے حسب سابق صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا رواں برس پن بجلی منافع کی مد میں صوبے کو39ارب روپے سے زائد رقم کم ملی ۔بجٹ 2021-22کے مطابق مالی سال 2020-21کیلئے 58ارب30کروڑ روپے پن بجلی کی مد میں وفاق سے ملنے تھے جس میں سے21ارب50کروڑ روپے کی رواں برس کی ادائیگی کا تخمینہ لگایا گیا تھا اسی طرح مصالحتی ادائیگی کی صورت میں36ارب80کروڑ روپے ملنے تھے تاہم دستاویزات کے مطابق پن بجلی کی مد میں ایک پائی تک موصول نہیں ہوئی ہے اور مصالحتی ادائیگی کی صورت میں صرف 19ارب روپے ہی موصول ہو سکے ہیں جو تخمینہ سے 39ارب30کروڑ روپے کم ہیں۔ مالی سال 2019-20کے دوران پن بجلی خالص منافع کی مد میں40ارب جبکہ مالی سال 2018-19کے دوران صوبے کو45ارب روپے کم دیئے گئے تھے۔ تین سالوں کے دوران صوبے کو پن بجلی خالص منافع کی مد میں 124ارب روپے کم دیئے گئے ہیں ۔اسی طرح آئندہ مالی سال 2022-2021 کے بجٹ میں صوبائی محاصل کی مد میں 75.5ارب روپے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے جبکہ روان مالی سال کے لئے یہ ہدف52.2ارب روپے تھے اس طرح یہ روان مالی سال کے مقابلے میں28.1ارب روپے زیادہ ہیں ‘ بجٹ دستاویزات کے مطابق ان میں صوبائی ٹیکسوں سے وصولی کے لئے 43.2خدمات پر عائد سیلز ٹیکس سے27.0 ارب روپے ‘ دوسرے صوبائی ٹیکسوں 16.2ارب روپے جبکہ پراونشل نان ٹیکس وصولیوں کی مد میں31.8ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ‘ اسی طرح مالی سال2018-19 میں صوبائی محاصل کی مد میں 8.31ارب روپے ‘ مالی سال2020-19 میں 42.3ارب روپے جبکہ مالی سال2021-2020 کے لئے 49.2 ارب کا ہدف مقرر کیا تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کے تحت بڑھا کر52.2ارب کر دیا گیا مگر ریکوری کی شرح46.9ارب روپے رہی۔ان تمام تقابلی جائزوں اور اعداد و شمار کی حقائق کے تناظر میںدیکھا جائے تو صوبے کے دل خوش کن بجٹ کا انحصار تخمینوں پرمبنی ہے اور یہ مشروط بجٹ ہے کہ اگر یہ اہداف حاصل کر لئے گئے اوروفاق کی جانب سے گزشتہ سالوں کے بالکل برعکس بجلی کے خالص منافع کی مطلوبہ رقم موصول ہوئی اور حکومتی اخراجات کے لئے اضافی رقم لینے کی ضرورت نہ پڑی تبھی منصوبوں پر عملدرآمد ہو سکے گاجبکہ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ سال کے دعوئوں کے برعکس اس سال بھی حکومت نے ایک سو نو ارب گیارہ کروڑ روپے سے زائد کا ضمنی بجٹ پیش کیا۔ بجٹ کی تفصیلات اور جزئیات میں بہت سارے اعداد و شمار اور دعوے کئے گئے ہیں جن سے قطع نظرحکومت کی اولین کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مرکز سے ہر حال میں بجلی کے خالص منافع کی رقم اور بقایاجات کی وصولی پرتوجہ دے اور محصولات کی وصولی کا ہدف بہر قیمت حاصل کی جائے اخراجات پر قابو پایا جائے اور کوشش کی جائے کہ ضمنی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑے ان امور کی رعایت رکھنے سے ہی بجٹ کا توازن برقرار رکھنا ممکن ہو گا اور اگر اس میں ناکامی ہوئی تو حکومت اپنی تمام مساعی کے باوجود مالی سال کے آخر میں ایک مرتبہ پھر کٹہرے میںنظر آئے گی جس سے بچنے کے لئے نئے مالی سال کے پہلے دن سے ہی پوری کوشش کی جائے اور سخت مالی نظم و ضبط اختیار کی جانی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟