1 69

حضور! ابتر ہوتے حالات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے

گھابرنا (گھبرانا) تو پڑتا ہے جب ہمیں پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار یہ بتا رہے ہوں کہ میں نے 3جنوری2020 کو ہی پنجاب کی وزارت صحت کے ذمہ داران کو یہ ہدایت کردی تھی کہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے ضروری اقدامات کر لئے جائیں۔ اس سے قبل وزیراعظم نے اپنی نشری تقریر میں بتایا تھا کہ انہوں نے 15جنوری کو کورونا کیخلاف اقدامات کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ایک کالم نگار سائنسدان لکھ رہے ہیں کہ چین میں کورونا امریکہ سے منگوائی گئی ”خوراک” کے ذریعے پھیلا، ہمارے گھابرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ محمد صفدر کے نورنظر خواجہ آصف جو کہ اس ملک کے وزیردفاع اور وزیرخارجہ رہے ہیں کرونا وائرس کی وباء کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھ کر پیش کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچیں کہ پہلے سے تقسیم اور پریشان سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارے سیاستدان عجیب مخلوق ہیں اور مارشل لاؤں کے ادوار میں تخلیق ہوئے سیاستدان بالکل عجیب وغریب یہ بولتے ہوئے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ شیخ رشید گو مارشل لاء کی وبا کے موسم میں تخلیق نہیں ہوئے لیکن منہ بند رکھنے پر انہیں بھی قدرت حاصل نہیں، آئے دن دوسروں کا ٹھٹھ اُڑاتے ہوئے وہ 1976ء کے سال کی وہ ایک شب بھول جاتے ہیں جب انہیں بے سر وسامانی کے عالم میں ڈیوس روڈ لاہور پر واقعہ مسلم لیگ ہاؤس (یہ دفتر آج کل ق لیگ کے قبضے میں ہے) سے فرار ہونا پڑا تھا اوراس فرار کی وجہ سے وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نہ بن سکے، ان کے مدمقابل نعیم رضا ناز بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔ شیخ رشید اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایم ایس ایف کے متحدہ پاکستان کے صدر رہے حالانکہ یہ تنظیم 1976ء میں اس وقت بنائی گئی جب محمد حنیف رامے پیپلزپارٹی سے الگ ہو کر مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر بنے تھے اور ایم ایس ایف کا احیاء انہی کا منصوبہ تھا۔ خیر اس جملہ معترضہ سے آگے بڑھتے ہیں، ڈی جی خان میں قائم قرنطینہ کے ضمن میں تفتان میں پیدا ہونے والے گمبھیر مسائل کو مدنظر نہیں رکھا گیا، 780افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح بڑے بڑے ہالوں میں بھر دیا گیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ ہوگا کیا؟14دن اگر یہ لوگ اس قرنطینہ میں قیام کر کے گھروں کو جاتے ہیں تو کیا واقعی صحت مند ہوں گے؟ کوئی جائے اور مشیران وماہرین طب کو سمجھائے کہ حضور! قرنطینہ کا مطلب پکنک ہرگز نہیں، اس کی الگ سے بنیادی شرائط ہیں، انہیں پورا نہ کیا گیا تو مسائل بڑھیں گے۔ دوسری طرف دو اہم معاملات اور ہیں، اولاً سعودی عرب میں موجود عمرہ زائرین جن کی تعداد سات سے گیارہ ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے اور پھر ایران میں ، عراق وشام سے ایران سے پہنچے اور ایران گئے زائرین جو ایک اطلاع کے مطابق 45سو سے6ہزار تک ہیں ہم اگر سعودی عرب اور ایران میں موجود زائرین کی تعداد کو دس ہزار میں مان لیں تو کیا آنے والے دنوں میں تفتان بارڈر یا کراچی، لاہور، اسلام آباد اس وقت ان تین ہوائی اڈوں پر انٹرنیشنل فلائٹس آرہی ہیں کے قریب کتنے قرنطینہ مراکز قائم ہیں اور کیا ان میں (تفتان کی حالت سب کے سامنے ہے) اس بیماری کے حوالے سے حفاظتی انتظامات عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے عین مطابق ہیں؟ قبل ازیں بھی یہ عرض کر چکا کہ مسائل ومشکلات اور کمزوریوں کی نشاندہی کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا ہرگز نہیں بلکہ توجہ دلانا مقصود ہے۔ مسائل ہیں اور گمبھیر بھی آنکھیں بند کر کے رہا جا سکتا ہے نامحض یہ کہہ کر کہ ”گھبرانا نہیں”۔ بندہ پرور گھبراہٹ اس لئے ہے کہ دو باتیں نظرانداز ہوئیں اولاً عالمی اصولوں کے تحت انتظامات اور ثانیاً تاخیر۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ وقت ابھی ہاتھ سے بالکل نکل نہیں گیا، زندگی سبھی کو عزیز ہے اور ہونی چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں روزانہ کی بنیاد پر حکمت عملی اپنائیں، دو عالمی اداروں سے 58کروڑ ڈالر کی امداد این ڈی ایم اے کے سپرد کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی۔ اس ادارے نے اب تک کیا کیا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ بھاری بھر کم بجٹ والا یہ ادارہ نمائشی ادارہ ہے اس پر ستم یہ ہے کہ اس کی کارکردگی پر سوال کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں باتیں غلط ہیں جب ادارے عوام کے ٹیکسوں پر قائم اور برقرار ہوں تو لوگوں کو سوال کرنے کا حق ہے۔ دو بڑے عالمی مالیاتی اداروں کی امدادی رقم اس ادارے کو دینے کے فیصلے سے قبل عوام کو یہ تو بتایا جائے اس نے اب تک کیا تیر مارے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سندھ حکومت جس کی موجودہ صورتحال میں کارکردگی کی عالمی ادارہ صحت بھی تحسین کرتے ہوئے دنیا میں تیسرے اور ایشیاء میں دوسرے نمبر پر قرار دے رہا ہے، اسے وفاق پاکستان یکسر نظرانداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ سندھ حکومت کی حکمت عملی دوسرے صوبے اپناتے، اس سے زیادہ مناسب یہ ہوتا کہ سندھ حکومت کیساتھ ملکر حکمت عملی وضع کی جاتی مگر بُرا ہو سیاسی تعصب کا جس کا ایک ثبوت ایک خاتون وزیرمملکت کے یہ الفاظ ہیں ”یہ وقت کسی کی تحسین کا نہیں ہمیں وزیراعظم کے خطاب سے رہنمائی لینی چاہئے۔ خداوند یہ کسی مخلوق منتخب ہوکر آگئی ہے، سندھ بھارت یا افغانستان کا صوبہ نہیں بلکہ پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ وہ صوبہ ہے جس کی اسمبلی نے قیام پاکستان کیلئے اس وقت قرارداد منظور کی تھی جب پنجاب میں برطانوی ٹوڈی حکومت قائم تھی۔ بہت دکھ کیساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پنجاب حکومت اعداد وشمار چھپا رہی ہے اس کے ذمہ داروں اور بالخصوص ناپسندیدہ سرگرمیوں اور معاملات کی وجہ سے ترجمانی سے ہٹائے گئے ایک صاحب کا صبح شام مخالفین کیخلاف پروپیگنڈہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ یہ وقت سیاسی غصہ نکالنے اور مرچیں چبانے کا نہیں، مجموعی طور پر پاکستان کو مسائل ومشکلات کا سامنا ہے ان سے کیسے محفوظ ترین انداز میں نکل کر آگے بڑھنا ہے یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اُمید کریں کہ اہل اقتدار واختیارات عوام کیلئے سوچنے اور اقدامات کی ضرورت کو محسوس کریں گے۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ