1 538

وزیراعظم کی باتیں بجا مگر ۔۔؟

امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یہ تو کہہ دیا کہ ہم امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لئے اڈے نہیں دے سکتے، یہ کہ افغانستان میں ایکشن لینے کیلئے کسی کو بھی پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے اس بات کی بھی سختی سے تردید کردی کہ پاکستان نے کسی بھی سطح پر امریکہ کو اڈے دینے کی پیشکش کی ہے۔ وزیراعظم کے یہ خیالات گزشتہ 40برسوں کی افغان پالیسی اور امریکہ کی ہمنوائی کی وجہ سے سنگین مسائل سے دوچار ملک کے لوگوں اور منتخب حکومت کے اجتماعی موقف کی ترجمانی تو ہیں البتہ وزیراعظم کو دفتر خارجہ سے گزشتہ دنوں کے اس بیان پر جواب طلب کرنا چاہیے کہ ہم2001 کے معاہدہ پر عمل کررہے ہیں۔ دفتر خارجہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب بعض امریکی ذمہ داران نے پاکستان کے دورہ کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستانی حکام نے بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لئے اڈے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اصولی طور پر دفتر خارجہ کو وزیر خارجہ اور وزیراعظم سے مشورہ کے بعد وضاحتی بیان جاری کرنا چاہیے تھا لیکن جس طرح جلد بازی میں بیان جاری کیا گیا اس سے یہ تاثر ابھرا کہ خارجہ پالیسی منتخب حکومت کے کنٹرول میں نہیں اس سے پاکستان کی عالمی برادری میں سبکی ہوئی۔ بہرطور اب وزیراعظم نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قابل ستائش ہیں۔ خدا کرے کہ یہ خیالات عملی تصویر بھی ثابت ہوں گزشتہ چالیس برسوں کے دوران امریکہ کی ہمنوائی میں ہم نے جس افغان پالیسی پر عمل کیا اس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تین سو کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کی جنگ کے اثرات نے ہماری سرزمین پر تشدد کا دروازہ کھول دیا جس سے 70ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جانوں سے گئے۔بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کیا مجبوری ہے کہ وہ امریکی فورسز یا سی آئی اے کو افغانستان میں کارروائی کے لئے سہولتیں فراہم کرے ؟۔ افغانستان میں قیام امن صرف پاکستان کی ضرورت ہے نہ ہی اس کی ذمہ داری بلکہ افغان تنازع کے تمام فریقوں بالخصوص امریکہ اور نیٹو جو بیس سال تک افغانستان میں پڑائو ڈال کر بیٹھے رہے اور افغانستان کے پڑوسی ممالک سب کو مل کر قیام امن کے حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ امریکی جب قطر میں طالبان سے مذاکرات کررہے تھے تو انہوں نے اس عمل میں ا فغان حکومت کو شریک کیوں نہ کیا؟ کیا امریکی حکام اس امر سے لاعلم تھے کہ اگر افغانستان سے انخلا سے قبل متحارب افغان دھڑوں خصوصا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے معاہدہ امن نہ ہوا تو انخلا کے مکمل ہوتے ہی افغان اقتدار اعلی پر قبضے کے لئے نئی جنگ شروع ہوجائے گی؟ افغان عمل کے حوالے سے امریکہ طالبان معاہدہ قطر خالصتاً امریکی مفادات پر مبنی تھا اس وقت بعد کے حالات کو مدنظر نہ رکھنے والے اب پاکستان سے اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اجازت دینے کی توقع کیوں کررہے ہیں؟ افغانستان میں بدلتی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ چند روز قبل سینکڑوں افغان سیکورٹی
اہلکار بھاری اسلحہ سمیت طالبان سے جاملے ہیں۔ مختلف صوبوں کے26سے زائد اضلاع میں قبضے کے لئے جنگ جاری ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران سکیورٹی فورسز اور طالبان کے جھگڑوں میں طرفین کے180افراد کے علاوہ 211عام شہری جاں بحق ہوچکے۔ اس بدامنی، قتل و غاری گری اور دوسرے مسائل کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ اندریں حالات پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ امریکی پالیسیوں اور خودغرضیوں کا بوجھ اٹھاکر اپنے لئے مسائل پیدا کرے۔ یہاں ہم وزیراعظم سے درخواست کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ اس امر کی آزادانہ تحقیقات کروائیں کہ پچھلے دو ماہ کے دوران مقامی طور پر بعض کالعدم تنظیموں اور ان کے ہم خیال مدارس سے اڑھائی ہزار کے قریب افراد طالبان کی مدد کے لئے یہاں سے گئے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے شائع ہونے والی خبریں درست ہیں تو یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی حکومت سے بالابالا ماضی کی افغان پالیسی کو جاری رکھنے کا خواہش مند ہے ایسا ہے تو یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ وزیراعظم کسی تاخیر کے بغیر اس معاملے پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر اس امر کو یقینی بنائیں کہ منتخب حکومت کو کوئی بھی بائی پاس کرے نہ اس کے لئے مسائل پیدا کرے اور جن کالعدم تنظیموں اور مدارس میں افغان طالبان کے حق میں مہم چلائی جارہی ہے ان کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔ہمیں بطور خاص اس بات کا خیال کرنا ہوگا کہ مشرف دور کی دوغلی پالیسی نہ اپنائی جائے بلکہ پاکستان اپنے وسیع تر مفادات کو بہر صورت مد نظر رکھے مفاد اس کے سوا کوئی نہیں کہ افغانستان کے بدلتے حالات میں بھڑکتی آگ ہمارے دامن تک نہ پہنچے اور نان سٹیٹ ایکٹرز کوئی تماشا نہ لگانے پائیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!