4 405

وزیراعظم کا کرارا جواب

امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت امریکہ کو فوجی اڈے نہیںدے گا۔ٹی وی اینکر کے استفسار پر وزیراعظم نے دوبارہ کہا کہ کبھی نہیں۔ وزیراعظم کے اس واضح بیان نے ایک طرف اپنے ملک کے اندر پائے جانے والے اس ابہام کو دورکردیا جو ایک عرصے سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتا رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ اور اسکے اتحادیوں کوواضح پیغام پہنچادیا کہ اسکا ملک مستقبل میں امریکی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ اسکے ساتھ ہی وزیراعظم کے اس بیان نے افغانستان کے اندر بھی اس تشویش کو دورکردیا ہے کہ ماضی کی طرح اب پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کا پہلے دن سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ٢٠٠١ میں امریکی جنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے بڑی غلطی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکہ کو کسی دوسرے ملک کے اندر فوجی اڈو ں کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے؟ اور بفرض محال امریکہ کو افغانستان میں فوجی انخلا کے بعدطالبان کی کارروائیوں پر نظر رکھنا مقصود ہے تو پھر اسکے لئے صرف پاکستان کا انتخاب کیوں کیاگیا؟ ۔ اگر امریکہ کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی شدت پسندانہ کارروئیاں مستقبل میں
علاقے میں امریکی مفادات کیلئے خطرہ ہیں تو وہ اسکے خلاف خلیجی ممالک خصوصاقطر اور بحرین کے اندر موجود اپنے فوجی اڈوں سے باسانی یہی کارروائی کرسکتے ہیں۔ امریکہ کے پاس بلاشبہ وہ جنگی صلاحیت موجود ہے کہ وہ انٹر کانیٹیننٹل بیلسٹک میزائل کے ذریعے ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں اپنے ہدف کونیست ونابود کرسکے۔پاکستان کے اندر فوجی اڈوں پر امریکہ کے اصرارکا مقصد بظاہر افغانستان نہیں بلکہ علاقے کے دیگرریاستوں ایران اور خصوصاً چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اورمعاشی صلاحیت پر نظر رکھنا ہے۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان نے نہ کرہی دیاتواب وطن عزیز کیلئے اسکے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ پاکستان اس وقت معاشی حوالے سے ایک نازک دور سے گزررہا ہے۔مملکت خداداد پہلے ہی بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ملک کی بیٹھتی معیشت میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ بیرونی قرضوں کے بغیرچل سکے۔ رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی۔امریکہ بہادرآئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے پاکستان پر اپنا دباو بڑھاسکتی ہے۔امریکہ اقوام متحدہ کے ذریعے پاکستان پر مذید اقتصادی پابندیاں لگاسکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے گرے لسٹ میں ہے اور توقع ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ ہونے والے اجلاس میں پاکستان وائٹ لسٹ میں آجائے لیکن اگر امریکہ چاہے تو پاکستان کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ویسے بھی کچھ اچھے نہیں رہے ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں جب جوبائیڈن نے امریکہ کے صدر کی حیثیت سے عنان اقتدار سنبھال لی تو دوسرے روز ہی پاکستان میںامریکی صحافی ڈینیل پرل کے مبینہ قاتل کی رہائی نے دوطرفہ تعلقات کو مزید پیچیدہ کردیا۔تب سے امریکی صدر جوبائیڈن اور وزیراعظم عمران کے درمیان کم ہی رابطہ ہوا ہے ۔ پاکستان کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ انکار کی صورت میں پاکستان کو عالمی محاذ پر سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے بھی باخبر ہے کہ چند امریکی ڈالروں کے عوض مملکت خداداد کی بقا پر کوئی سمجھوتہ کرنا اس ملک اور عوام کے ساتھ غدداری کے مترادف ہوگا۔ 2001 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد
پاکستان نے امریکہ کے ایک اہم اتحادی کے طور پر فرنٹ مین کا کردار ادا کیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے اندر 70000 سے زائد لوگ اس جنگ کی نذر ہوگئے۔لاکھوں لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑکر اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی بسرکرنی پڑی۔ اس دوران مالی نقصانات کا تخمینہ ١٥٠ ارب ڈالر سے بڑھ کر رہا۔لوگوں کے گھربار اجڑ گئے اور عوام ابھی تک اس جنگی حالت سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ امریکہ کو فوجی اڈے دے کر ایک بار پھر پاکستان کو میدان جنگ بنانا مملکت خداداد کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلنے کے مترداف ہوگا۔ وزیراعظم نے امریکہ کو صاف انکار کرکے انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔نیشنل میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا ٹرینڈز کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے عوام کے دل کی ترجمانی کی ہے۔وزیراعظم بارہا اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ افغانستان کی اخلاقی امداد جاری رکھے گا اور سیاسی اور سفارتی میدان میں انکا ملک افغانستان میں قیام امن کیلئے بھرپور کردار اداکرتا رہے گا۔افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر سراہا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان خلوص نیت سے افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور اسکے لئے امن کی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے کو تیار ہے لیکن اس جنگ کو جیتے کیلئے اب وہ کسی بھی جنگی محاذ پر جانے کیلئے قطعاًتیا ر نہیں۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ