3 424

ہم احسان مند ہیں

وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم نااہل سہی لیکن مجھے وزیراعظم صاحب کی صاف گوئی اور بہادری بہت پسند ہے ۔ ایک عرصے بعد اس ملک و قوم کو ایک بہادر اور صاف گوآدمی بطور لیڈرملا ہے ۔ ایک ایسا آدمی جو امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ مغرب کے ذہن پر اسلاموفوبیا سوار ہے اور یہ بات آج کی نہیں وزیر اعظم صاحب نے یہ بات بار بار کی۔ اقوام متحدہ میں اپنی تقریر سے لے کر آج تک یہ بات وہ کتنی ہی بار کہہ چکے ہیں ۔ اب تک اس ملک میں کتنے حکمران ایسے آئے ہیں جن میں یہ جرأت ہو کہ وہ مغرب کو یہ بات بلا جھجھک کہہ سکیں۔ مغرب کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اسلام سے واقعی صلیبی جنگوں کے دور کی دشمنی آج تک نبھا رہے ہیں۔ امریکہ کے عراق پر حملے کے وقت جارج بش کے منہ سے یہ بات نکل گئی تھی لیکن مسلمانوں میں تو ایک عرصے سے صلاح الدین ایوبی والی کوئی خو باقی نہیں کبھی کسی نے احتجاج نہ کیا ۔ آج دو ہی مسلم ملکوں کے لیڈران ہیں جو ایسی ہمت رکھتے ہیں۔ جناب طیب اردگان اور جناب عمران خان اور دونوں ہی مغرب سے بالکل نہیں گھبراتے۔
اس حکومت کے جو اقدامات ‘ جو اصولی موقف اس قوم کا فخر ہونے چاہئے تھے افسوس یہ ہے کہ اس قوم کو اس حوالے سے بھی عجب بے وجہ کی بحث میں الجھایا جاتا ہے اور وہ الجھ جاتے ہیں اس سب میں الجھ کر وہ اصل حقیقت سے بھی بے بہرہ ہوجاتے ہیں اس حکومت کے علاوہ کس گزشتہ حکومت میں یہ طاقت یا اہلیت رہی ہے کہ وہ امریکہ کو صاف انکار کر سکے کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو امریکی جنگ کے لئے استعمال نہ ہونے دیں گے یہاں تو حکمرانوں کا یہ عالم رہا ہے کہ جب امریکہ کی طرف سے میاں نواز شریف کو بحثیت وزیر اعظم ہر اک شئے کے حوالے سے ”ڈومور” کی تاکیدکی جاتی تھی اور وہ ہر ایک بات پر سرتسلیم خم کرتے تھے ایک بار ہمت کرکے جھنجھلا اٹھے اور یہ کہہ دیا کہ اور کیا کروں کیا کلمہ پڑھنا بھی چھوڑ دیں اور اسی ملک میں ایک صاحب صدر وہ بھی رہے جنہوں نے امریکی جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا کیونکہ حب الوطنی کے ہر درس کو بچپن سے یاد کرنے کے باوجود وہ امریکہ کی بات سے انکار نہ کر سکتے تھے ان کے دنوں میں پاکستان کے اندر امریکی فوجی اور سی آئی اے کے لوگ دندناتے پھرے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ حال یہ تھا کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بلیک واٹر کے کارندوں کوگھر کرائے پر دینا زیادہ بہتر سمجھا جاتا تھا کیونکہ بہتر دام ملتے تھے ۔ پاکستان کے اندر اور پاکستان کو پیر رکھنے کی جگہ بنا کر افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کی گئیں۔ امریکہ نے جب کبھی چاہا پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اس استعمال کے عوض جس امداد کی آس دلائی اسے جب چاہا کم کیا۔ وہ معاملات جن کا احسان امریکہ کو تسلیم کرنا چاہئے تھا ‘ امریکہ نے ان کو پاکستان پر بھپتی کسنے کو استعمال کیا اور ہماری حکومتیں ہمیشہ یہ سرجھکائے ساری باتیںسنتی رہیں۔ آج اس حکومت اور وزیر اعظم صاحب کے اس بے باک موقف سے نہ صرف اس قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے پرانے زخم بھی ادھڑ گئے ہیں۔ ایمل کانسی کی گرفتاری پر امریکی سینیٹر کے تبصرے سے لے کر بل کلنٹن کے میاں نواز شریف کے ہاتھ دبانے تک ہر قسم کی ذلت کے آنسو اس قوم کی آنکھوں میں بھر آئے ہیں۔ برسہا برس کی تذلیل کا ازالہ آج ہوا ہے اور اس ازالے کو بھی اپوزیشن اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ قوم اچھی بری ہر بات بھول جاتی ہے ۔ کسی کا ظلم کسی کا احسان دونوں ایک ہی وقت میں بھول جایا کرتی ہے ۔ ہم نہیں سوچتے کہ کبھی اس ملک میں کسی حکمران نے خواہ اس کا پس منظر کیسا بھی رہا ہو ‘ اس ملک کی حمیت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بات نہیں کی ‘ کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ بارہا اس ملک کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ ‘ ان کی باتوں ‘ ان کے اقدامات سے تلملا کر دہراتا کہ ”حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے” لیکن وہ اپنی کمزوری اور بزدلی کی تاویل یہی کہتے تھے کہ گھر ہی نہ رہا تو حمیت کا کیا کریں گے ۔ اب بھی حالات تو ویسے ہی ہیں لیکن اب کی بار حکومت ایسی ہے کہ خود ان کے اندر حمیت باقی ہے ایسی جرأت بھی کہ وہ امریکہ کو فوجی اڈوں کے لئے زمین دینے سے انکار بھی کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ہر ایک بات جو اس انٹرویو میں کہی گئی میں اس پر ایک بات سے متفق ہوں۔ ہر ایک جملہ ‘ ہر ایک لفظ بالکل درست تھا اور ہم میں سے ہر ایک شخص دراصل اس وقت وزیر اعظم کا احسان مند ہے چاہے وہ یہ بات مانے یا نہ مانے ۔ اسی حوالے سے بے شمار باتیں ابھی بحث طلب ہو جن پر انشاء اللہ اگلے کالم میں بات ہو گی۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے