Untitled 1 622

کل کی نشست ایک ناٹک مودی نے اعتراف کرلیا کہ” دلوں کی دوری بھی ہے اور دلی سے دوری بھی ہے-وزیر خارجہ

ویب ڈیسک (اسلام آباد): وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی وزارتِ خارجہ میں پریس کانفرنس، کل دلی میں ایک بیٹھک ہوئی جس میں تقریباً 14 کے قریب کشمیری قائدین کو مدعو کیا گیا، اس اجلاس میں کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے گفتگو ہوئی، میری اطلاع کے مطابق اس ساڑھے تین گھنٹے کے اجلاس کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا اوپن فلور بحث ہوئی، کل کی بیٹھک میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا، ان کا موقف سب کے سامنے ہے وہ ہمیشہ حق خودارادیت کی بات کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا مستقل حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے، اس سے قبل 22 جون کو بھی ایک نشست ہوئی، اس نشست میں موجود کشمیری راہنماؤں نے باہمی مشاورت کے بعد ایک موقف اپنایا، 24 کی نشست میں انہوں نے اسی موقف کا اعادہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم مودی نے اعتراف کر لیا کہ” دلوں کی دوری بھی ہے اور دلی سے دوری بھی ہے” وہ جو ہندوستان کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ 5 اگست 2019 کے اقدامات سے مقبوضہ کشمیر میں بہت خوشحالی آئے گی، ان بیانات کے بعد یہ سارے دعوے خاک میں مل گئے، میری نظر میں کل کی نشست گفتن، نشستیں، برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں تھی، میری نظر میں یہ ایک ناٹک تھا کیونکہ پچھلے دو سال میں کشمیریوں پر جو ظلم و جبر کیا گیا اس سے ہندوستان اور وزیر اعظم مودی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی، اس خفت کو مٹانے کیلئے یہ کوشش کی گئی، پہلے دعویٰ کیا گیا کہ وہاں حالات بالکل معمول پر ہیں، کل کی نشست میں موجود کشمیریوں نے 5 اگست 2019 کے یک طرفہ اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیا، کشمیری کشمیر کی آئینی حیثیت کی مکمل بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد سے نمازیوں کے جوتے چوری

وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بھی سنائی دی کہ یہ یک-طرفہ اقدامات سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکے ہیں اور ابھی تک ان پر فیصلہ نہیں ہوا، واضح دکھائی دے رہا ہے کہ کشمیریوں کو ان کے مطالبات پر کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا، کشمیریوں کو کہا گیا کہ مناسب وقت پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا فیصلہ کریں گے، یہ ایک مبہم سی بات ہے، کیا ابھی اس مناسب وقت کا انتظار باقی ہے؟ سامنے آنے والے بیانات میں اعتماد کا فقدان دکھائی دیا۔

میری اطلاعات کے مطابق یہ بھی کہا گیا کہ اگر دلی سرکار کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خودمختاری کی بحالی لازم ہے، اجلاس کے بعد منظر عام پر آنے والی گفتگو سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کشمیری لوگ غم و غصے اور کرب کی حالت میں ہیں اور اپنی تضحیک محسوس کر رہے ہیں، ان کی گفتگو سے یہ تاثر بھی ملا کہ دلی سرکار نے 5 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد جو تاثر دیا کہ ان سے خوشحالی آئے گی صورت حال اس کے برعکس نکلی، کشمیریوں کی معیشت تباہ ہوگئی، ذہنی اذیت کے علاوہ کشمیریوں کو زیادہ مالی نقصان ہوا، ایک شخصیت نے تو یہاں تک کہا کہ 50 فیصد صنعت بند ہو چکی ہیں، کشمیر کی قیادت جیلوں میں ہے، بنیادی حقوق سلب ہیں، جبر کے تمام ہتھکنڈے آزمائیے گیے لیکن کشمیریوں کے حوصلوں کو پسپا نہیں کیا جاسکا، اس اے پی سی میں کشمیری، سیاسی قیدیوں کی رہائی، ماورائے عدالت قتل کا خاتمہ اور غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کرتے دکھائی دیئے، یہ مطالبات وہ کشمیری کر رہے ہیں جو گذشتہ ادوار میں دلی کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے ہیں، میری نظر میں کل کی نشست ناکام بے سود اور بے مقصد تھی، کشمیری آج بھی اپنی خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ علاقائی تناسب میں تبدیلی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، کشمیری اپنے بچوں کی ملازمتوں کیلئے تحفظ کے طلبگار ہیں۔

مزید پڑھیں:  وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ڈی آئی خان فائرنگ کی مذمت