p613 375

عوامی نمائندوں کی ترجیحات

خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا تنخواہوں میں گزر بسر نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے مطالبے سے ہمارے غمخواروں میں عوامی مسائل کے ادراک اور ان کے حل کی سنجیدگی کے ساتھ ان کی سوچ اور مزاج کا بخوبی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کی بجائے حزب اختلاف کی جانب سے آواز اٹھائی گئی ہے کہ وزراء اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کا مسئلہ ایک ہی بار حل کیا جائے ۔ان کا موقف ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔ ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں میں بھی جانا ہوتا ہے اور جو تنخواہ دی جارہی ہے اس میں گزارہ نہیں ہوتا۔ وزیربلدیات اکبرایوب کے مطابق گھپلے بیوروکریٹس کرتے ہیں اور بدنامی پھر سیاستدانوں کی ہوتی ہے ۔ صوبائی وزیر محمد عاطف تو دور کی کوڑی لائے ہیں کہ جب جائزضرورت پوری نہیں ہوگی توظاہرہے کرپشن بھی ہوگی ان کی یہ بات بدعنوانی کی وکالت کے مترادف ہے اسپیکراسمبلی مشتاق احمدغنی نے وزراء اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ اور سرکاری ریسٹ ہائوسز کے صحیح استعمال کیلئے 2کمیٹیاں قائم کرنے کا اعلان کیا ایک کمیٹی ارکان اسمبلی پر مشتمل ہوگی جبکہ کابینہ ارکان سے متعلق کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار وزیر اعلیٰ کو دیا گیا۔دونوں کمیٹیوں کو15دنوں میں سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی کمیٹیوں کی جانب سے مرتب کردہ سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا ۔وزراء کیلئے دفاتر نہ ہونے کی شکایت پرسپیکر نے تجویز دی کہ انتظامی سیکرٹریز کو ایک ماہ کیلئے سزاکے طور پر وزراء کے دفاتر میں بٹھایا جائے اور وزراء سیکرٹریز کے دفاتر میں بیٹھ جائیں۔حزب اختلاف اور حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی جب بھی مفادات کا معاملہ درپیش ہو یک جان دو قالب بن جاتے ہیں اسمبلی اجلاس اور میڈیا کے سامنے آنے کے علاوہ بھی ان کے تعلقات کبھی سیاسی مخاصمت کے نہیں رہتے بلکہ شیروشکر رہتے ہیں اسمبلی میڈیا یا پھر کسی عوامی اجتماع میں سادہ لوح عوام کو جتلانے کے لئے جو روپ دھار لیا جاتا ہے اس سے عوام یہ سمجھ رہے ہوتے ہیںکہ ہر حکومت وقت عوام کی دشمن اور حزب اختلاف عوامی حقوق کے تحفظ کی علمبردار ہوتی ہے عملی طور پر صورتحال جو بھی ہو اسمبلی کے فلور پر ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرنے والوں کا بیک زباں تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے مطالبے میں ان کا ا صل چہرہ دیکھنا زیادہ مشکل نہیں۔وزراء اور اراکین اسمبلی کی تنخواہیں و مراعات اور اجلاس میں شرکت پر اخراجات ومراعات کا حساب لگایا جائے تو مگرمچھ کے آنسو بہانے والوں کی حقیقت کھل جائے گی ۔ وزراء کی جانب سے بیورو کریسی سے حسد کا برملا اظہار اور ان کے دفاتر میں بیٹھنے کی تجویز عجب معاملہ ہے جہاں بیورو کریسی کا افسر شاہی کا کردار اور بدعنوانی و ملی بھگت سامنے آئے اس پر ان کو کٹہرا میں کھڑا کرنا احسن ہو گا لیکن اس طرح کا عمومی اظہار خیال مناسب نہیں اس طرح کے حاسدانہ خیالات کے اظہار سے حکومت اور بیورو کریسی کے تعلقات ہی متاثر ہوں گے جو حکومت کے مفاد میں ہر گز نہیں بیورو کریسی کو بھی یہ شکات رہتی ہے کہ ان پر دبائو ڈال کر کام نکلوانے والے عناصر بدعنوانی اور میرٹ کی پامالی کے اصل ذمہ دار ہیں بہرحال کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اختیارات کا غلط فائدہ اٹھائے بیورو کریسی حکومت کو جواب دہ ہے اور اس کا احتساب حکومت کا فرض ہے ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں کہ کسی بیورو کریٹ کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی کی گئی ہو۔ جو لوگ عوامی نمائندگی کے دعویدار ہیں انہیں اپنے لئے مراعات اور تنخواہوں کو ناکافی قرار دے کر اضافے کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ عوام کس حال میں ہیں ۔مہنگائی وبے روزگاری کا کیا عالم ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اپنی جگہ نجی اداروں کے ملازمین محنت کشوں اور صنعتی کارکنوں اور خاص طور پردیہاڑی دار مزدوروں کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے ان کی زندگی کا معیار کیا ہے اور ان کو کن کن مشکلات کا سامنا ہے مراعات کے اصل مستحق یہ لوگ ہیں کہ انتخاب لڑ کر کامیاب ہونے والے متمول اراکین اسمبلی اور حکمران؟ ہاتھ کی چھوٹی بڑی انگلیوں کا ایک برابر ہو کر نوالہ اٹھانے کے مصداق خیبر پختونخوا اسمبلی میں ہونے والا ایکا سے عوام کے سامنے ان کے مبینہ غمخواری کے دعویدار اراکین کا چہرہ واضح ہے جن سے کسی خیر کی توقع عبث ہے ۔ عوامی نمائندے اور اراکین کابینہ و بیوروکریسی مراعات ضرور لیں لیکن عوام کو درپیش مسائل و مشکلات کا بھی ان کو ادراک ہونا چاہئے عوام کے دکھوں کا مداوا بھی کرنے کی سعی کی ذمہ داری نبھانے پر پوری توجہ ہونی چاہئے جوان کی ذمہ داری اور عہدے کا تقاضا ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے بعد ہی وہ مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں عوام بدحال ہوں اور حکمران و اراکین اسمبلی خود ہی مراعات بڑھائیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ ہمارے غمخوار نمائندوں کو اپنے مسائل اور مشکلات کی طرح عوامی مسائل اور مشکلات کا بھی احساس ہو گا اور وہ پوری تندہی کے ساتھ عوامی مسائل کے حل کی سعی میںاسی طرح کے کامل ا تفاق کا مظاہرہ کریں گے جس کا مظاہرہ اپنے مطالبات پر کیا۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن