logo 8

تعلیمی پروگرام شروع کرنے کا احسن منصوبہ

خیبرپختونخوا کے سکول طلبہ کیلئےG-Suitکے ذریعے آن لائن کلاسز اور آن لائن ایجوکیشن سروسز فراہم کرنے اور اساتذہ کیلئے آن لائن تربیتی سیشنز پر گوگل ایجوکیشن ٹیم سے مشاورت اور محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا اور گوگل ایجوکیشن ٹیم مل کر صوبے کے طلبہ کیلئے آن لائن کلاسز کے اجراء کی تیاریاں احسن اقدامات کے زمرے میں آتا ہے۔ سکولوں کی بندش کے طویل ہونے اور وائرس پر قابو پانے کی صورتحال میں بہتری آنے سے قبل تعلیمی اداروں کو کھولنا شاید ہی ممکن نہ ہو، اس صورتحال سے والدین دوہری پریشانی کا شکارہیں ایک جانب جہاں بچوں کو گھروں میں پابند رکھنا مشکل ہوگیا ہے تو دوسری جانب بچوں کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے، خاص طور پر میٹرک اور انٹر کے امتحانات کی تیاریوں میں وقفہ اور خلل آنے سے خود طالب علم بھی مشکل کاشکار ہیں۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر تو واٹس ایپ گروپ بنا کر طلبہ کو ٹاسک دینے اور سمسٹر کی تیاری کا ممکنہ کام شروع کردیاگیا ہے، کالجوں اور سکولوں کے طلبہ کو مصروف رکھنے اور ان کو تعلیمی سرگرمیوں سے بالکل ہی الگ تھلک رکھنے سے ان کے وقت کا ضیاع اور تعلیم کا جو حرج ہو رہا ہے اس سے بچانے اور ان کے وقت کے بہتر مصرف کیلئے ٹی وی پر تعلیمی پروگرام شروع کرنے کے جتنے جلد اقدامات کئے جاسکیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
تنگ آمد بجنگ آمد
کرونا وائرس سے متاثرہ علاقہ منگا کے مکینوں کا لاک ڈائون تو ڑکر گھروں سے نکل آنے کا جو بھی جواز پیش کیا جائے وہ مناسب نہ ہوگا’ البتہ اس بات کی بھی گنجائش نہیں کہ اس طرح کی صورتحال کی نوبت آئے۔علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ دو روز سے اپنے گھروں میں قید ہیں ان کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی، علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء ناپیدہیں، گھروں میں بیمار بزرگ اور بچے پڑے ہیں، ان کوادویات کی ضرورت ہے۔لوگوں کا کہنا تھا کہ صرف لاک ڈائون سے کچھ نہیں ہو گا حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر ے۔منگاکے مکینوں نے واقعی سخت ضرورت کی بناء پر انتہائی قدم اُٹھایا یا پھر وہ لاک ڈائون کیلئے تیار نہیں تھے۔ دیکھا جائے تو اتنے دن تو نہیں گزرے تھے کہ مکینوں کے بیان کردہ صورتحال کی نوبت آتی۔ بہرحال جہاں بھی لاک ڈائون کا فیصلہ کیا جائے وہاں کے مکینوں کی بنیادی ضرورت کاخیال رکھا جائے تاکہ اس قسم کی صورتحال پیش نہ آئے۔
سات سال سے کم سزا یافتہ قیدیوں کی حمایت
خیبر پختونخوا کی جیلوں میں قیدیوں سے ملاقات کرنے پر پابندی کے اقدام کی مخالفت نہیں کی جاسکتی، اسی طرح پولیس کی جانب سے معمولی نوعیت کے الزامات میں گرفتاری سے گریز بھی وقت اور حالات کے مطابق احسن قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سات سال سے کم سزا والے قیدیوں کی ضمانت کی تجویز و ہدایت پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ معمولی مقدمات میں ملوث قیدیوں کی رہائی و ضمانت سے جیل میں گنجائش سے کہیں زیادہ قید افراد کی زندگی کا ممکنہ تحفظ ہوسکے گا۔ قیدی بھی حق زندگی رکھتے ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں خصوصی حالات میں قوانین میں نرمی اختیار کرکے جتنا ممکن ہوسکے قیدیوں کی رہائی ممکن بنانے پر توجہ کی ضرورت ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ بھری ہوئی جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیل جانے کی روک تھام کیلئے معمولی جرائم میں ملوث سات سال سے کم سزا پانے والے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کاعمل جلد شروع کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں